Monday, 22 August 2022

جب اٹھے تیرے آستانے سے

 جب اٹھے تیرے آستانے سے 

جانیو! اٹھ گئے زمانے سے 

دن بھلا انتظار میں گزرا 

رات کاٹیں گے کس بہانے سے 

جان بھی کچھ ہے جو نہ کیجے نثار 

مر نہ جائیں گے اس کے جانے سے 

ایک اس زلف سے اٹھایا ہاتھ 

چھٹ گئے لاکھوں شاخسانے سے 

کوئی مر جاؤ کام ہے اس کو 

اپنی تروار آزمانے سے 

اس کے تیر نگاہ کے آگے 

کچھ ہمیں بن گئے نشانے سے 

ناتوانی تجھے غضب آئے 

گئے اس کی گلی کے جانے سے 

کہاں بنگالہ اور کہاں میں رضا

بس نہیں چلتا آب و دانے سے 


رضا عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment