رات آنکھوں میں بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
تیری یادوں میں سحر ہو تو غزل ہوتی ہے
جذبِ دل، ذوقِ نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
ہر قدم محوِ سفر ہو تو غزل ہوتی ہے
کچھ نہیں ہے تو یہی خونِ تمنا ہی سہی
جب قلم خون میں تر ہو تو غزل ہوتی ہے
حُسنِ مہ اور ستاروں کی چمک سے بھی گُزر
پُھول بھی زخمِ نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
آج تک اہلِ ہوس پر نہ کھلا رازِ نہاں
کہ تِری ایک نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
لفظ ہوں برق فشاں، اور قلم شعلہ فگن
پھر جنوں سنگ بہ سر ہو تو غزل ہوتی ہے
لوگ تو سہل سمجھتے ہیں مگر اہلِ سخن
خونِ دل خونِ جگر ہو تو غزل ہوتی ہے
آج توقیر حقیقت سے اٹھا دے پردہ
نالۂ دِل میں اثر ہو تو غزل ہوتی ہے
توقیر علی زئی
No comments:
Post a Comment