Tuesday, 26 August 2025

نہ کوئی خوف ہے ہم کو نہ ہے خطرہ زمانے سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نہ کوئی خوف ہے ہم کو نہ ہے خطرہ زمانے سے

ہمیں ناطہ ہے سرکارﷺ زمن کے آستانے سے

رسول ہاشمیﷺ عشاق کو جلوہ دکھاتے ہیں

نگاہوں میں جمال گنبد خضریٰ بسانے سے

بلایا ہے مِرے آقاﷺ نے تو مشکل سے کیا ڈرنا

کوئی کیا روک پائے گا مجھے طیبہ میں جانے سے

داستاں ختم ہے اظہار وفا رہنے دو

 داستاں ختم ہے اظہار وفا رہنے دو

اب مرے واسطے جینے کی دعا رہنے دو

قربتیں پیار کی تقدیس گھٹا دیتی ہیں

پیار کو لمس کی جنت سے جدا رہنے دو

پھر کسی زخم کے کھل جائیں نہ ٹانکے دیکھو

رہنے دو تذکرۂ رسم وفا رہنے دو

آپ کا احسان پہ احسان ہے

 آپ کا احسان پہ احسان ہے

آپ کے قدموں میں میری جان ہے

خواہشوں کو دفن کر کے آ گیا

اب ہماری زندگی آسان ہے

دلکشی اتنی کہاں پاؤ گے تم

دیکھ لو یہ درد کی مسکان ہے

چلو جو پیار کرتے ہیں انہیں ماریں

پیار کے نام


 چلو جو پیار کرتے ہیں

انہیں ماریں، انہیں پیٹیں

انہیں قدموں تلے روندیں

انہیں پامال کر ڈالیں

اگر ہوں پھول ہاتھوں میں

تو کانٹے بھی چبھائیں ہم

کس نے دیا ہے سکھ میں سات

 کس نے دیا ہے سکھ میں سات

شفقت والی تیری ذات

باپ کا خون بیٹوں کے ہات

کتنے قاتل ہیں حالات

مدھم ہے تہذیب کی شمع

بجھنے کے ہیں امکانات

میرے داتا ترے سوا کیا ہو

 میرے داتا ترے سوا کیا ہو

کسی دربار سے عطا کیا ہو

زندگی زندگی جسے کہئے

اس سے بڑھ کر کوئی بلا کیا ہو

جو کرائے کے گھر بدلتے ہیں

ان کا اک مستقل پتہ کیا ہو

Monday, 25 August 2025

خیال مدحت شب سیہ کو اجالتا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خیالِ مدحت شبِ سیہ کو اجالتا ہے

خدا مجھے یوں ہر ایک غم سے نکالتا ہے

وہ میرے کشکول ذہن میں نعت ڈالتا ہے

کریم رب مجھ کو اس طرح سے بھی پالتا ہے

میں پیش کرتا ہوں نام سرکارﷺ کا وسیلہ

خدا مجھے ڈوبنے سے پہلے اچھالتا ہے

رات ہے یا سمندر کوئی کیوں اس میں ڈوب رہی ہوں

 عورت ذات


رات ہے یا سمندر کوئی

کیوں اس میں ڈوب رہی ہوں

تیری دید سے نہیں ڈرتی

مگر جدائی سے ڈرتی ہوں

وقت کا ظلم سہہ نہیں سکتی

ذرا ذرا بکھر جاتی ہوں

زندگی کو مری محروم دعا رہنے دے

 زندگی کو مِری محروم دعا رہنے دے

جو بھی تقدیر میں لکھا ہے لکھا رہنے دے

بستر مرگ پہ چپ چاپ پڑا رہنے دے

غم کے شعلوں کو نہ دے اور ہوا رہنے دے

پیار کا پنچھی پلٹ آئے گا کل ممکن ہے

واپسی کے لیے دروازہ کھلا رہنے دے

یہ کیا وطیرہ تمہارے نئے نظام کا ہے

 یہ کیا وطیرہ تمہارے نئے نظام کا ہے

سوال صبح کا تھا اور جواب شام کا ہے

ہوئی ہے جب سے محبت میں میری رسوائی

تمام شہر میں چرچا تمہارے نام کا ہے

جو طے کیا ہے مشینوں سے آج انساں نے

وہ فاصلہ تو فقط میرے ایک گام کا ہے

میں نے یہ کہا کب کہ منانے کے لیے آ

 میں نے یہ کہا کب کہ منانے کے لیے آ

مجھ کاٹھ کے الو کو پھنسانے کے لیے آ

میرے لیے آ اور نہ زمانے کے لیے آ

بچے کو فقط دودھ پلانے کے لیے آ

ہر روز وہی گوشت وہی گوشت وہی گوشت

اک دن تو کبھی دال پکانے کے لیے آ

دم بھی نہ لینے پاؤ گے دن کی تکان سے

دم بھی نہ لینے پاؤ گے دن کی تکان سے

اتنے میں تیر برسیں گے شب کی کمان سے

لفظوں کے پتھروں ہی سے آؤ تراش لیں

کچھ ساعتیں حسین سی لمحے جوان سے

آنسو جو کوئی آنکھ سے ٹپکا تو یوں لگا

جیسے ستارے ٹوٹ گرے آسمان سے

Sunday, 24 August 2025

آؤ باتیں کریں زمانے کی

 آؤ باتیں کریں زمانے کی


وہ جو اظہار کو مچلتی ہے

اس کو ہم کر کے دفن سینوں میں

بھول جاتے ہیں وہ محبت ہے

آؤ باتیں کریں زمانے کی


ہے کوئی آگ یاں دہکتی ہوئی

کئی چنگاریاں، کئی شعلے

مشاہدہ نہ کوئی تجربہ، نہ خواب کوئی

 مشاہدہ نہ کوئی تجربہ، نہ خواب کوئی

تمام شعر و سخن، حرفِ اجتناب کوئی

اک انتظارِ مسلسل میں دن گزرتے ہیں

کہ آتے آتے نہ آ جائے انقلاب کوئی

تمام اہلِ زمانہ، شکارِ حرص و ہوس

کرے تو کیسے کرے اپنا احتساب کوئی

نام ان کا ورق ورق لکھ دو

 نام ان کا ورق ورق لکھ دو

اور اسے بس مِرا سبق لکھ دو

چاہے دل کا مِرے عرق لکھ دو

یا اسے سرخئ شفق لکھ دو

عشرتیں سب تمہیں مبارک ہوں

اپنے ہر غم کو میرا حق لکھ دو

اک مصیبت یہ ہے کہ دل مرا برہم بھی ہے

 اک مصیبت یہ ہے کہ دل مِرا برہم بھی ہے

اور اس دل میں تِری یاد کا ماتم بھی ہے

فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کیا چننا ہے

دامن وقت میں آنسو بھی ہیں مرہم بھی ہے

مجھ سے ملنے کی خوشی مجھ کو بہت ہے لیکن

اک طرف تم سے بچھڑنے کا مجھے غم بھی ہے

کج کلاہوں نے بہت شور مچا رکھا ہے

 کج کلاہوں نے بہت شور مچا رکھا ہے

چور اچکوں نے بہت شور مچا رکھا ہے

اپنی آنکھوں سے کہو بولیں مگر آہستہ

ان چراغوں نے بہت شور مچا رکھا ہے

وجہ تہمت ہیں مِرے جسم پہ بوسوں کے نشاں

کچھ گناہوں نے بہت شور مچا رکھا ہے

Saturday, 23 August 2025

سفر پہ نکلے تو تنہائیاں بھی ساتھ چلیں

 سفر پہ نکلے تو تنہائیاں بھی ساتھ چلیں

تمہاری یاد کی پرچھائیاں بھی ساتھ چلیں

قدم قدم پہ بڑھا فاصلوں کا سناٹا

قدم قدم پہ سبھی دوریاں بھی ساتھ چلیں

گلاب چہرہ بہت پیچھے چھوڑ آئے مگر

تمہارے گاؤں کی رنگینیاں بھی ساتھ چلیں

اس کو سننے نہ دیا اور ہمیں کہنے نہ دیا

 اس کو سننے نہ دیا اور ہمیں کہنے نہ دیا

درد نے اٹھ کے کبھی آپ میں رہنے نہ دیا

اب وہ بالیدگئ روح کا سامان کہاں

غمِ دوراں نے غمِ یار بھی کہنے نہ دیا

ضبط سے کام لیا ہم نے بہت کچھ لیکن

راز کو راز مگر آہ نے رہنے نہ دیا

عبارتیں نہ پڑھو صرف سرخیاں دیکھو

عبارتیں نہ پڑھو صرف سرخیاں دیکھو

ورق ورق پہ لکھی ہیں تباہیاں دیکھو

جو لکھ سکو تو فقط مدحِ قاتلاں لکھنا

دکھائی دے تو بلندی میں پستیاں دیکھو

بجی ہے آج کہیں بنسری سیاست کی

جلیں گی اور ابھی کتنی بستیاں دیکھو

حیات لے کے بساط جہاں سے گزرا ہوں

 حیات لے کے بساط جہاں سے گزرا ہوں

کہ اک طویل رہِ امتحاں سے گزرا ہوں

قسم خدا کی تمہاری کہیں نظیر نہ تھی

تلاشِ حُسن میں کون و مکاں سے گزرا ہوں

ہوس ہے گلشنِ فردوس کی کسے واعظ

کہ ایک بار تو باغِ جناں سے گزرا ہوں

کسی کے غم کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں

 کسی کے غم کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں

ہم اپنے سارے غموں کو بھلائے بیٹھے ہیں

سکون دل کے لیے آج تیرے دیوانے

تِرے خیال کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں

سیاہ رات ہے وہ آئیں تو اجالا رہے

اسی امید پہ شمعیں جلائے بیٹھے ہیں

دل کھچ رہا ہے احمد مختار کی طرف

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل کِھچ رہا ہے احمدِﷺ مختار کی طرف 

ہم جا رہے ہیں سیدِ ابرارﷺ کی طرف 

حیران ہو رہے ہیں  مَلک شہرِ نور میں 

جب دیکھتے ہیں آپؐ کی رفتار کی طرف 

دشمن  کو بھی  حضورﷺ نے  اپنا بنا لیا  

سب تک رہے ہیں آپؐ کے کردار کی طرف 

Friday, 22 August 2025

چہار سمت ملے کو بہ کو دکھائی دے

 چہار سمت ملے کُو بہ کُو دکھائی دے

میں ایک نظم کہوں جس میں تُو دکھائی دے

وہ سامنے ہو تو سیراب اس طرح سے ہو

کہ چشم دید میں بھرتا سبُو دکھائی دے

خیالِ وصل سے زرخیز ہو زمین دل

تو پھر غزل میں تِری گُفتگُو دکھائی دے

جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے

 جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے

چھوٹے گہن کہ مجھ کو مری روشنی ملے

کیوں ضبط و احتیاط میں گزرے تمام عمر

اس منتشر دماغ کو بس برہمی ملے

ہر اجنبی سے شہر میں ڈھونڈو خلوص دل

ہر آشنائے‌ شہر سے بے گانگی ملے

ذکر توبہ چھوڑ کر اب جام کی باتیں کریں

 ذکرِ توبہ چھوڑ کر اب جام کی باتیں کریں

اہلِ غم کو چاہیے کچھ کام کی باتیں کریں

چھیڑ کر اے ہم نفس! دل کے شکستہ ساز سے

ابتدائے عشق میں، انجام کی باتیں کریں

آؤ مل کر آج ہم بھی اے اسیرانِ قفس

انقلابِ صبحِ خوں آشام کی باتیں کریں

بہت سہی غم فرقت پر اس قدر بھی نہیں

 بہت سہی غمِ فرقت پر اس قدر بھی نہیں

ہمارے حال کی تم کو ابھی خبر بھی نہیں

زمیں کے خشک لبوں تک تقاطرِ امطار

نہیں پہنچتا کچھ ایسا تو گو سفر بھی نہیں

تِرے بغیر مِری زیست تیرے غم کی قسم

بہت ہے تلخ مگر اس سے کچھ مفر بھی نہیں

ہوا کا تلخ لہجہ ہے چراغوں کی پریشانی

ہوا کا تلخ لہجہ ہے چراغوں کی پریشانی

چمکتے چاند سورج ہیں ستاروں کی پریشانی

کناروں میں بھی شاید ڈوب جانے کی طلب ہوگی

پتہ کیسے کریں گے ہم کناروں کی پریشانی

مرے پیارے ہماری زندگی میں اور بہت غم ہیں

محبت ہجر یہ تو ہیں ہزاروں کی پریشانی

آمد سرکار کا جلوہ نظر آنے لگا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آمدِ سرکارﷺ کا جلوہ نظر آنے لگا

بہرِ عزت سجدے میں کعبہ نظر آنے لگا

نور والا آ رہا ہے نور کی بوچھار ہے

ہر طرف جگ میں سماں اُجلا نظر آنے لگا

عید میلاد النبیﷺ کی برکتیں تو دیکھیے

بختِ خفتہ اوج پر سب کا نظر آنے لگا

Thursday, 21 August 2025

کوئی کاندھا نہیں میسر ہے

 کوئی کاندھا نہیں میسر ہے

جس پہ پہروں میں سر ٹکا پاتی

آنکھ کے راستے بہا پاتی

وہ اذیت بھرے سبھی لمحے

جو میری جان تو نہیں لیتے

ہاں

مجھے روز مار دیتے ہیں

ماں کی یاد میں اسے مدت ہوئی دفنا کے آیا ہوں

 ماں کی یاد میں


اسے

مدت ہوئی

دفنا کے آیا ہوں

مگر لگتا ہے جیسے وہ

کھلی کھڑکی میں بیٹھی، آج بھی ہے

منتظر میری

باغباں بد گماں نہ ہو جائے

 باغباں بد گماں نہ ہو جائے

دشمن آشیاں نہ ہو جائے

گردشیں بڑھ رہی ہیں قسمت سے

یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے

مسکرا تو رہے ہیں آپ مگر

نذر آتش جہاں نہ ہو جائے

ان کے در کو دوا سمجھتے تھے

 ان کے در کو دوا سمجھتے تھے

یعنی دار الشفا سمجھتے تھے

کیوں نہ آتا عذاب بستی پر

لوگ خود کو خدا سمجھتے تھے

وہ بھی اپنی قبیل کا نکلا

ہم جسے پارسا سمجھتے تھے

جو تکبر سے بھٹکتی ہے زباں

 جو تکبر سے بھٹکتی ہے زباں

آگے آگے پھر بہکتی ہے زباں

ہو گیا ناسور ہر اک لفظ ہے

بولتا ہوں پکنے لگتی ہے زباں

جلد سے چھن چھن کے بہتے ہیں خیال

اور آنکھوں سے چھلکتی ہے زباں

ہر خوف ایک جیسا نہیں ہوتا

 خوف


چلچلاتی ہوئی سنسان دوپہر میں چیل کی آواز

نئے کٹھن امتحانوں سے گزرنے کا دھڑکا

محبت میں ٹھکرائے جانے کا خیال

خوف نے آدمی کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے

لیکن

خوف

وہ دل درد آشنا نہ رہا

 وہ دل درد آشنا نہ رہا

زندگی میں کوئی مزا نہ رہا

آ کہ مرگ و حیات میں اے دوست

آنِ واحد کا فاصلا نہ رہا

اب کہاں وہ مزے محبت کے

جورِ بے گانۂ وفا نہ رہا

ترا نسب شہ خوباں سے فیض یاب ہوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تِرا نسب شہِ خوباں سے فیض یاب ہوا

تِرا لقب مِرے حیدرؑ ابو تراب ہوا

تِرے حرم میں پیمبر کی لاڈلی دختر

کچھ اس ادا سے بھی گھر تیرا لا جواب ہوا

سلام خیبر و بدر و احد کے شیر جوان

شجاعتوں کا تِرے نام انتساب ہوا

Wednesday, 20 August 2025

خواب پلکوں پہ مری آ کے مچل جاتے ہیں

 خواب پلکوں پہ مری آ کے مچل جاتے ہیں

یا کبھی بن کے گہر آنکھ سے ڈھل جاتے ہیں

مجھ کو گوشہ کوئی مانوس سا جو لگتا ہے

لوگ دیوار پہ تصویر بدل جاتے ہیں

کل وہ عالم تھا کہ اک جان تھی دو قالب تھے

آج یہ ہے کہ وہ کترا کے نکل جاتے ہیں

بار ایک قطرہ آنسو کا

 بار ایک قطرہ آنسو کا


ایک سچی کہانی

جب دھکیل دی جاتی ہے

کسی فلمی کلائمکس کی طرف

اپنا منہ چھپا لیتا ہے سورج

پھیکے چاند کی اوٹ میں

ایک دوسرے کے گرد گھومتے کبوتر

منت کش علاج مسیحا نہیں رہا

 منت کش علاج مسیحا نہیں رہا

کیا غم اگر مرض سے افاقہ نہیں رہا

کثرت میں امتیاز ہے وحدت میں کچھ نہیں

قطرہ ملا جو بحر میں قطرہ نہیں رہا

دل میں تو جلوہ گر ہیں نگاہوں سے دور ہیں

پردے کی بات یہ ہے کہ پردہ نہیں رہا

حصار شہر میں رسوائیاں ہیں اور میں ہوں

 حصار شہر میں رسوائیاں ہیں اور میں ہوں

زمانے کی کرم فرمائیاں ہیں اور میں ہوں

سنہرا خواب ہے تنہائیاں ہیں اور میں ہوں

نظر میں دور تک رعنائیاں ہیں اور میں ہوں

یہ کون آیا در و دیوار گھر کے مسکرائے

خوشی سے وجد میں انگنائیاں ہیں اور میں ہوں

اللہ رے خود فریبی جب غم کی رات آئی

 اللہ رے خود فریبی جب غم کی رات آئی

ہم یہ پکار اٹھے؛ لو صبح 🌞 مسکرائی

ضبطِ فغاں کی ہم کو تاکید کرنے والو

کانٹوں کی سیج پر ہے کب کس کو نیند آئی

سچ ہے کہ غمزدوں کو ہے غمزدوں سے نسبت

جب دل سے درد اٹھا تو آنکھ بھی بھر آئی

Tuesday, 19 August 2025

وہی ہے جو زمانہ پالتا ہے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہی ہے جو زمانہ پالتا ہے

چھپی باتیں دلوں کی جانتا ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے وہی اک

مِری جانب مسلسل دیکھتا ہے

جہاں سویا ہوا ہو گرچہ سارا

وہ سنتا، دیکھتا وہ جاگتا ہے

جواب لفظوں سے ماورا ہیں

 ایک عورت


انا کے ٹکڑے لیے کھڑی ہے

کبھی سوالی ہے ذہن و دل سے

کبھی گلہ ہے ضمیر سے بھی

مگر کہاں کوئی سن رہا ہے

یہ پتھروں کے مکاں کے اندر

مکیں بھی سارے ہیں پتھروں کے

عجب ہے یہ قصہ کہانی میں دم ہے

 عجب ہے یہ قصہ کہانی میں دم ہے

یہ سب نے کہا تھا کہانی میں دم ہے

پلٹ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے میرے

کسی نے پکارا کہانی میں دم ہے

مِری ڈائری کو جلانے سے پہلے

وہ کہہ کر گیا تھا کہانی میں دم ہے

آب رواں پسند ہے یاد گزشتگاں پسند

 آبِ رواں پسند ہے، یادِ گزشتگاں پسند 

مجھ کو سمٹتے بادباں، لوٹتی کشتیاں پسند 

شیرِیں بیاں ہو کوئی لاکھ، ہم کو کسی سے کیا غرض 

ہم کو تِرے بیاں قبول، ہم کو تِری زباں پسند 

ہم کو ہے عاجزی کی چاہ، اُن کو غرور کی طلب 

ہم کو زمیں سے پیار ہے، اُن کو ہے آسماں پسند 

حادثے میں نے غم و کرب کے جھمیلے کتنے

 حادثے میں نے غم و کرب کے جھمیلے کتنے

وقت نے ساتھ لگائے تھے جھمیلے کتنے

تلخ لہجوں کے وہ چبھتے ہوئے نشتر کے گھاؤ

مجھ سے مت پوچھ مِری روح میں پھیلے کتنے

جب سے دیکھا ہے تِرے ساتھ کسی کو میں نے

ذہن میں آتے ہیں شبہات کے ریلے کتنے

کچھ زخم تجھے ڈھونڈ کے پانے میں لگے ہیں

 کچھ زخم تجھے ڈھونڈ کے پانے میں لگے ہیں

کچھ تجھ سے محبت کے نبھانے میں لگے ہیں

تعمیر تو کیا،۔ حسرتِ تعمیر نہیں ہے

ہم پھر بھی تِرے ناز اٹھانے میں لگے ہیں

وہ تیز ہوا ہے کہ بجھی جاتی ہیں شمعیں

اور آپ اندھیروں کو سجانے میں لگے ہیں

Monday, 18 August 2025

منور ہو گیا جگ آمد محبوب یزداں سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


منور ہو گیا جگ، آمدِ محبوبِﷺ یزداں سے

گُلستانوں نے پائی زندگی، صُبحِ بہاراں سے

کوئی دُوجا نہیں اُس شاہِ شاہاں، شاہِ خُوباں سا

کوئی اچھا نہیں اُس جانِ جاناں، جانِ ایماں سے

وہ اندازِ سخن،۔ حُسنِ بیاں،۔ شیرینئ گُفتار

ہوا گرویدہ اِک عالم نبیؐ جی، توری بتیاں سے

با خدا عشق کا آزار برا ہوتا ہے

 با خُدا! عشق کا آزار بُرا ہوتا ہے

روگ چاہت کا بُرا، پیار برا ہوتا ہے

جاں پہ آ بنتی ہے جب کوئی حسیں بنتا ہے

ہائے، معشوقِ طرحدار برا ہوتا ہے

یہ وہ کانٹا ہے نکلتا نہیں چُبھ کر دل سے

خلشِ عشق کا آزار برا ہوتا ہے

شہروں شہروں دیس میں خوف کا پہرہ ہے

شہروں شہروں دیس میں خوف کا پہرا ہے

کہتی ہے سرکار؛ یہ دور سنہرا ہے

کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہو پایا ہے

گونگی ہے جنتا یا حاکم بہرا ہے

کب تک قید کرو گے سورج سوچو تو

برف کا تاج و تخت کہاں کب ٹھہرا ہے

غم مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

 غم مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

مجھ سے بچ کر چلو تو اچھا ہے

ان کے آنے سے گھر ہے یوں روشن

چاند آنگن میں جیسے اترا ہے

آپ کیوں اس پہ روشنی ڈالیں

وہ ہے جیسا بھی میرا اپنا ہے

اس برس خوشوں کے دانے کھیت مل کر کھا گئے

 اس برس خوشوں کے دانے کھیت مل کر کھا گئے

سیپیاں باقی رہیں،۔ موتی سمندر کھا گئے

اب فضا میں ڈھونڈتے رہیے وہ پیکر اب کہاں

کیسے کیسے دل نشیں چہروں کو منظر کھا گئے

پار جو اترے وہی اپنی کہانی کہہ سکے

کون جانے کشتیاں کتنی سمندر کھا گئے

کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا

 کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا

زمانہ ہم سے ہماری خوشی بھی چھینے گا

سہارہ کون غریبوں کو دوست دیتا ہے

غریب کی تو کوئی جھونپڑی بھی چھینے گا

اسی کے دم سے ہے قائم نظام سانسوں کا

یہ زندگی ہے اسی کی کبھی بھی چھینے گا

ماتھے پہ سجدوں کے نشاں کالا نشاں بھی دل میں ہے

 ہم کو ہے طلب آخرت عشقِ بُتاں بھی دل میں ہے

ماتھے پہ سجدوں کے نشاں، کالا نشاں بھی دل میں ہے

ویسے تو جاں نثار ہیں،۔ قلب و جگر نثار ہے

شاید بُتوں سے کچھ ملے، اس کا گُماں بھی دل میں ہے

دیکھیں گے رب کو بے حجاب، جنت میں جا بسیں گے ہم

پُوجا بُتوں کو عُمر بھر اس کا زیاں بھی دل میں ہے

Sunday, 17 August 2025

اے دو عالم کے حسینوں سے نرالے آ جا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت برنگِ غزل


دلِ بے تاب کو سینے سے لگا لے آ جا

کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آ جا

پاؤں ہیں طُولِ شب غم نے نکالے آ جا

خواب میں زُلف کو مُکھڑے سے لگا لے آ جا

بے نقاب آج تو اے گیسوؤں والے آ جا


نہیں خُورشید کو ملتا تِرے سائے کا پتہ

ہوا کو آزمانے جا رہے ہو

 ہوا کو آزمانے جا رہے ہو

چراغ دل جلانے جا رہے ہو

اسی در پر سنورتا ہے مقدر

جہاں سر کو جھکانے جا رہے ہو

جو سنگ میل ہے راہ وفا کا

اسے رستہ بتانے جا رہے ہو

اتنی جلدی تو ترے فن میں نہیں آ سکتے

 اتنی جلدی تو ترے فن میں نہیں آ سکتے

ہجر کے کھیل لڑکپن میں نہیں آ سکتے

کوئی دامن ہو سلامت تو چلو رو بھی لوں

میرے آنسو کسی کترن میں نہیں آ سکتے

ہم سے پاگل کو سمجھ پانا ترے بس کا نہیں

ہم وہ دریا ہیں جو برتن میں نہیں آ سکتے

نہ کر گناہوں کا للہ حساب رہنے دے

نہ کر گناہوں کا للہ حساب رہنے دے

یہ بے حساب ہیں تو بے حساب رہنے دے

سنا ہے تِرے کرم کی تو انتہا ہی نہیں

تو لینا دینا ہی کیا ہے، کتاب رہنے دے

پلا وہ شے کہ نہ باقی رہے حِرص ساقی

اور رند بول اٹھیں اب شراب رہنے دے

منزل عشق ایک ہو درد جگر بھی ایک ہو

 منزل عشق ایک ہو درد جگر بھی ایک ہو

دل کی تپش بھی ایک ہو فکر نظر بھی ایک ہو

عشق کا غم انہیں بھی ہو اور نشہ مجھے بھی ہو

رنج و الم بھی ایک ہوں، اس کا اثر بھی ایک ہو

لب بھی ہم نے سی لیے اور کہا بھی کچھ نہیں

دل کی جو بات کہہ سکے ایسا بشر بھی ایک ہو

Saturday, 16 August 2025

تم ہو آقا میرے مولا تم ہو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تم ہو آقاﷺ، میرے مولا! تم ہو 

مرض عشق کی دوا تمﷺ ہو 

کس کو یارا کرے یہ وصف بیاں

تم ہو، تم، رحمتِ خدا تمﷺ ہو 

آئے ہو بن کے رحمتِ عالم 

اپنے اللہ کی عطا تمﷺ ہو 

کیا یہی قصۂ محبت ہے

 کیا یہی قصۂ محبت ہے


کل ملا ہے فقط گھڑی بھر وہ

اور دلِ بے قرار کہتا ہے؛

کہ مجھے اس سے، اس کی ہر شے سے

جیسے اک عمر سے محبت ہے

اک لگاؤ ہے جیسے صدیوں سے

اک تعلق ازل سے ہے گویا

آؤ اپنے حصے کی دھوپ لے کر ہوا ہو جائیں

 اک نئی دنیا کا سبب


اس سے پہلے کی ہم

ایک غم ناک کہانی کے کردار ہو جائیں

آؤ اپنے حصے کی دھوپ لے کر

ہوا ہو جائیں

کسی اور سیارے میں جا بسیں

آدم اور حوا ہو جائیں

بے حس ہیں یہاں لوگ بھلا سوچ كے کرنا

 بے حس ہیں یہاں لوگ بھلا سوچ كے کرنا

اِس دور میں لوگوں سے وفا سوچ كے کرنا

گل شاخ سے بچھڑے تو کہیں کا نہیں رہتا

تم ذات میری خود سے جدا سوچ كے کرنا

اک بار جو روٹھے تو منا تم نہ سکو گے

ہم جیسے فقیروں کو خفا سوچ کے کرنا

میں بنانے بیٹھتا ہوں کچھ تو بن جاتا ہے کچھ

 میں بنانے بیٹھتا ہوں کچھ تو بن جاتا ہے کچھ

کار خلقت میں کبھی ہوتا بھلا ایسا ہے کچھ

روز محشر اے خدا! اس بات کا رکھنا خیال

میں نے دنیا میں تری بویا تھا کچھ کاٹا ہے کچھ

آج پھر سے کوئی عاشق رمز عرفاں پا گیا

آج پھر سے محفل خوباں میں سناٹا ہے کچھ

شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا

 شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا

کہ اس کا کوئی نہیں تھا مرا ٹھکانہ بھی کیا

یہ سچ ہے اس سے بچھڑ کر مجھے زمانہ ہوا

مگر وہ لوٹنا چاہے تو پھر زمانہ بھی کیا

میں ہر طرف ہوں وہ آئے شکار کر لے مجھے

جہاں ہدف ہی ہدف ہو تو پھر نشانہ بھی کیا

کس کو دکھلائیں گے وہ ناز و ادا میرے بعد

 کس کو دکھلائیں گے وہ ناز و ادا میرے بعد 

ہو گی کس پر یہ بھلا مشق جفا میرے بعد 

دیکھیے آپ بھی افسردہ رہیں گے اکثر

یار آ جائے گی جب میری وفا میرے بعد

زینت حسن بڑھی خون جگر سے میرے

پھیکا پڑ جائے گا یہ رنگِ حنا میرے بعد

Friday, 15 August 2025

جسے قرب شاہ مدینہ ملا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جسے قربِ شاہِ مدینہ ملا ہے 

اسے زندگی کا قرینہ ملا ہے 

کلامِ الٰہی کی عظمت کے صدقے

اسے میرے آقاﷺ کا سینہ ملا ہے 

ہمیں طیبہ جانا تھا قسمت ہماری

ہمیں مصطفےٰﷺ کا سفینہ ملا ہے 

رات آنکھوں میں خواب آئے تھے

 رات آنکھوں میں خواب آئے تھے

مسکراتے جناب آئے تھے

جس میں مرقوم تھا وفا کا سبق

پھر وہ لے کر کتاب آئے تھے

ان کے ہونٹوں نے جب غزل چھیڑی

میرے رخ پر گلاب آئے تھے

ہر پل جلائے آنسوؤں سے دید کے دیے

 ہر پل جلائے آنسوؤں سے دِید کے دِیے

بُجھنے نہیں دِئیے کبھی اُمید کے دیے

کابوس دیکھتا وہ رہا عمر بھر سدا

جس نے چُرائے دوسروں سے نیند کے دیے

اُکتا کے اک ہی وِرد سے تسبیح رو پڑی

پھر خُود میں خُود پِرو دئیے تجرید کے دیے

آپ جب بر سر پیکار نظر آتے ہیں

 آپ جب بر سر پیکار نظر آتے ہیں

ایک کھینچی ہوئی تلوار نظر آتے ہیں

نیند میں اور بھی ہشیار نظر آتے ہیں

خواب میں فتنۂ بیدار نظر آتے ہیں

عقل حیران ہے آئینِ وفاداری پر

ان کے دیوانے سرِ دار نظر آتے ہیں

مجھے اے زندگی آواز مت دے

 مجھے اے زندگی آواز مت دے

نہیں منزل کوئی پرواز مت دے

جئے جاتا ہوں عادت بن چکی ہے

نہیں سر لگتے یا رب ساز مت دے

نیا ہے روپ عالم کا خدایا

انوکھا اب مجھے انداز مت دے

کوئی دیوار اٹھائی نہ کوئی در رکھا

 کوئی دیوار اٹھائی نہ کوئی در رکھا

اینٹ کو تکیہ کیا ریت کو بستر رکھا

پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا میں نے

اور ان آنکھوں کو شیشے میں سجا کر رکھا

اس سے تسکین نہیں ہوگا اضافہ دکھ میں

دشت کا نام اگر ہم نے سمندر رکھا

راہ تشکیک سے ہٹتا تو یقیں پر آتا

 راہ تشکیک سے ہٹتا تو یقیں پر آتا

مجھ سا گمراہ بھی افلاس کے دیں پر آتا

یہ بھی اچھا ہوا ٹوٹا نہ ستارہ کوئی

ورنہ الزام تو مجھ خاک نشیں پر آتا

ہم ہی صدیوں سے سزاوارِ جنوں ٹھہرے ہیں

اب بھی لازم ہے کہ یہ بار ہمیں پر آتا

عشق تاروں سے نہ مہتاب سے دلداری کی

 عشق تاروں سے نہ مہتاب سے دلداری کی

رات نے دھوپ کے بستر پہ سیہ کاری کی

میں وہ دہقان جنوں خیز ہوں جس نے اپنے

جسم کے کھیت میں زخموں کی شجرکاری کی

مدتوں لٹکی رہی موم کی زنجیر سے لاش

برف کے سوکھے ہوئے پیڑ پہ چنگاری کی

Thursday, 14 August 2025

خون دل لفظوں سے بہہ نکلے کلام ایسا تو ہو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خونِ دل لفظوں سے بہہ نکلے کلام ایسا تو ہو

شعر میرا گنگنائیں خاص و عام ایسا تو ہو

چھوڑ کر امت نہ جو بھاگے امام ایسا تو ہو

مشکلیں جتنی پڑیں سب کر لے رام ایسا تو ہو

منہ سے تو ساحر کہیں لیکن امانت کے طفیل

ذہن و دل دونوں جھکیں خیرالانامﷺ ایسا تو ہو

کتنے ہی رنگ کھلے جاتے ہیں شادابی میں

 کتنے ہی رنگ کھلے جاتے ہیں شادابی میں

تم نے دیکھا ہے مجھے عالمِ بے خوابی میں

چشم نمناک ہے خوابوں کی نمو یابی میں

اور ہم محو ہیں اک عالمِ غرقابی میں

یہ محبت ہے جنوں ہے یا فسانہ ہے کوئی

کیسے اسرار ہیں پنہاں مِری بیتابی میں

تو شاد رہے آباد رہے آزاد رہے

 مادرِ وطن کے لیے ایک نظم


گر شاد نہیں 

آباد نہیں

آزاد نہیں

تو شاد رہے

آباد رہے

آزاد رہے

سفر سے لوٹ کے ہم اپنے گھر نہیں جاتے

 سفر سے لوٹ کے ہم اپنے گھر نہیں جاتے

تھکن تو ہوتی ہے اے دوست! مر نہیں جاتے

یہ بات طے ہے فقط آبرو ہی جاتی ہے

ہے راہ عشق کبھی اس میں سر نہیں جاتے

اگرچہ منزل مقصود مل گئی ہوتی

تو در بدر کہاں پھرتے ٹھہر نہیں جاتے

ہر گام حادثے ہیں مقدر بنے ہوئے

 ہر گام حادثے ہیں مقدر بنے ہوئے

رہزن دکھائی دیتے ہیں رہبر بنے ہوئے

وہ دورِ خوشگوار خدا جانے کیا ہوا

مندر تھے مسجدوں کے برابر بنے ہوئے

کیا آشیاں کہاں کا چمن کیسے رنگ و بو

مدت ہوئی قفس کو مِرا گھر بنے ہوئے

شب کے پر ہول سے سناٹوں سے جان جاتی ہے

 شب کے پر ہول سے سناٹوں سے جان جاتی ہے

وصل کے لمحے بڑے دشمن جاں ہوتے ہیں

نرم پنچھی ہیں جہاں چاہیں بسیرا کر لیں

دل کے باسی ہیں بھلا دور کہاں ہوتے ہیں

نہ مچا شور دل زار! دھڑکنا بس کر

کتنے ارماں تیرے پاس پڑے سوتے ہیں

Wednesday, 13 August 2025

زر خاک شہر جمال دے تری نعت ہو کوئی بات ہو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زرِ خاکِ شہرِ جمال دے، تری نعت ہو کوئی بات ہو

سحر اذانِ بلال دے، تری نعت ہو کوئی بات ہو

گل شامِ غم کو نہال کر مجھے لمحہ لمحہ بحال کر

درِ صبحِ درد اجال دے، تری نعت ہو کوئی بات ہو

کبھی پتھروں کو تراشنا،۔ کبھی اپنا آپ تلاشنا

کبھی چشم و لب خد و خال دے، تری نعت ہو کوئی بات ہو

ہر سانس جیسے زہر کا اک جام ہو گئی

 ہر سانس جیسے زہر کا اک جام ہو گئی

اب زندگی بھی موردِ الزام ہو گئی

گُم صُم ہے چاند اور ستارے بھی ہیں خموش

کیا تیرے دردِ دل کی خبر عام ہو گئی؟

گُل پر ہے اختیار نہ خُوشبو کا اعتبار

گُلشن بھی کیا بہار بھی نیلام ہو گئی

یاد سے صرف دل ملا رکھیے

 کوئی شکوہ کوئی گلہ رکھیے

کچھ نہ کچھ جاری سلسلہ رکھیے

مسئلے زندگی کے اپنی جگہ

فصلِ گُل کا بھی کچھ پتا رکھیے

چند لمحے چھُپا کے لوگوں سے

خُود کو خُود میں بھی مُبتلا رکھیے

اب تو اپنوں سے ہی ہے اپنے وطن کو خطرہ

 اب تو اپنوں سے ہی ہے اپنے وطن کو خطرہ

یعنی پھولوں سے بھی ہوتا ہے چمن کو خطرہ

کہیں مندر سے ہیں خطرے میں میاں عبداللہ

کہیں مسجد سے نظر آیا مدن کو خطرہ

کوئی پامال نہ کر دے کہیں عصمت میری

راہ چلنے پہ بھی ہوتا ہے بہن کو خطرہ

حرم کی راہ میں ساقی کا گھر بھی آتا ہے

 حرم کی راہ میں ساقی کا گھر بھی آتا ہے

سفر میں لمحۂ تر کہ سفر بھی آتا ہے

تجھے کہ پردہ نشیں یہ ہنر بھی آتا ہے

نظر بھی آتا نہیں اور نظر بھی آتا ہے

دبی دبی سی زباں میں یہ پوچھنا قاصد

کبھی خیال میں آشفتہ سر بھی آتا ہے

کیا کہتا ہے ناصح لوگو روکو اس دیوانے کو

کیا کہتا ہے ناصح لوگو! روکو اس دیوانے کو

ہم نکلے ہیں سر کٹوانے تو نکلا سمجھانے کو

موت فنا کا نام نہیں ہے یہ تو اک دروازہ ہے

گزریں گے سب عاشق اس سے تیری دید ہی پانے کو

مردہ ہیں وہ اس دنیا میں جو دل عشق سے خالی ہیں

عشق فنا سے بالا تر ہے کر دو خبر زمانے کو

Tuesday, 12 August 2025

نبی کا نام لے تا کہ جہاں خوشبو دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بیاں کو واعظِ شیریں بیان خوشبو دے

نبیؐ کا نام لے تا کہ جہاں خوشبو دے

لبوں پہ آئے محمدﷺ تو کائناتِ کُل

درود ان پہ پڑھے، ہر زبان خوشبو دے

نبیؐ کے نام پہ قربان کیوں نہ ہو جاؤں

زمیں پہ نام لوں اور آسمان خوشبو دے

جام ہونٹوں سے لگاؤ تو ذرا آہستہ

 شام کے ساتھ جلا ایک دِیا آہستہ

بُجھ نہ جائے کہیں اے باد صبا آہستہ

یاد ایام کی تلخی بھی ملی ہے اس میں

جام ہونٹوں سے لگاؤ تو ذرا آہستہ

زخم ہی زخم ہے سر تا بہ قدم جسم مِرا

پھُوٹ جاؤں نہ کہیں دستِ ہوا آہستہ

پردۂ خلوت کے سرکانے کی گستاخی معاف

 پردۂ خلوت کے سرکانے کی گستاخی معاف

بے اجازت بھی چلے آنے کی گستاخی معاف

ہر ادا پر غور فرمانے کی گستاخی معاف

آج تو کچھ ہوش میں آنے کی گستاخی معاف

آج جیسا قرب شاید پھر کبھی حاصل نہ ہو

آج حالِ دل بھی کہہ جانے کی گستاخی معاف

سوچتے ہیں یار کے ہی سر پہ وار دیں تجھے

سوچتے ہیں یار کے ہی سر پہ وار دیں تجھے

زندگی گزارنے کو ہم گزار دیں تجھے

ہم تو چاہتے ہیں تجھ کو دل میں ہی اتار دیں

دل تو چاہتا ہے اپنا اور پیار دیں تجھے

کیوں بدل گیا ہے تو کیا ہوا ہے یار جی

دل سے اپنے آج ہم کیوں اتار دیں تجھے

حجاب میں حبیب ہے یہ عشق بھی عجیب ہے

 حجاب میں حبیب ہے یہ عشق بھی عجیب ہے

کہ سامنے رقیب ہے یہ عشق بھی عجیب ہے

کبھی اسے بلاؤ تم،۔ کوئی غزل لکھاؤ تم

بہت بڑا ادیب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے

پڑا ہوا ازل سے ہے سراغِ دل کے پیچھے جو

یہی وہ عندلیب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے

Monday, 11 August 2025

کہتا ضرور کچھ مگر طاقت نہیں رہی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کہتا ضرور کچھ مگر طاقت نہیں رہی 

دیکھا انہیں تو قوتِ گفتار کھو گئی 

آنکھوں میں یُوں بسے ہیں کہ دن رات ہر گھڑی 

دیکھا جدھر بھی اُن سے مُلاقات ہو گئی 

میں اور اُن کے حُسن کے اتنا قریب تر

بس شیخ کی یہ میرے کرامات ہو گئی 

خلاف ظلم غزل بھی ہے جنگجو میری

 خلاف ظلم غزل بھی ہے جنگجو میری

یہی سبب کہ غزل ہے لہو لہو میری

جلا دی روح مری اس پہ یہ ستم دیکھو

گھمائی ایک صدی لاش کو بہ کو میری

ہاں مستفید ہوئے یوں ذلیل بھی مجھ سے

ادھار لے لی ذلیلوں نے آبرو میری

تو وہی ہم بھی وہی قصہ پرانا ہو گیا

تُو وہی ہم بھی وہی قصہ پرانا ہو گیا

ہم کو گھر چھوڑے ہوئے اب اک زمانہ ہو گیا

شہر میں دستار کی باتیں ہوئی تھیں رات بھر

صبح ہوتے ہی کسی کا سر نشانہ ہو گیا

پار اترنا تھا ہمیں یا ڈوب مرنا تھا ہمیں

نا خدا ہی ڈوب جانے کا بہانہ ہو گیا

پرانی الجھنیں سلجھا رہا ہوں

 پرانی الجھنیں سلجھا رہا ہوں

مگر اپنے لیے ایک مسئلہ ہوں

میں اپنے شہر کی گلیوں میں اکثر

خود اپنے آپ کو ہی ڈھونڈتا ہوں

مجھے چھیڑو نہ تم سنگِ ستم سے

میں طوفاں ہوں مگر ٹھہرا ہوا ہوں

چوری کیسی بھی ہو یہ لت بھی بری ہوتی ہے

 چوری کیسی بھی ہو یہ لت بھی بری ہوتی ہے

دل چرا لینے کی عادت بھی بری ہوتی ہے

اچھی عادت کا نفع لوگ اٹھا لیتے ہیں

حد سے زیادہ تو شرافت بھی بری ہوتی ہے

یہ زمانہ بڑا نازک ہے سنبھل کر چلئے

جان من اتنی نزاکت بھی بری ہوتی ہے

روداد غم کی جب سے شہرت سی ہو گئی ہے

روداد غم کی جب سے شہرت سی ہو گئی ہے

رنگینئ جہاں سے وحشت سی ہو گئی ہے

تیور بتا رہے ہیں انداز بے رخی کے

ان کو جفا سے شاید رغبت سی ہو گئی ہے

ناحق اٹھا رہے ہو طوفاں تجلیوں کے

ذوق نظر کو میرے غفلت سی ہو گئی ہے

Sunday, 10 August 2025

حرص کے جو اسیر ہوتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حرص کے جو اسیر ہوتے ہیں

کب وہ تیرے فقیر ہوتے ہیں

ہو گئے دو جہان سے آزاد

وہ جو تیرے اسیر ہوتے ہیں

بے نیاز کلاہ، رخت و لباس

لوگ جو خوش ضمیر ہوتے ہیں

وفاؤں کا مری اے کاش ان کو اعتبار آئے

 اگر زاہد تو محفل میں ہماری ایک بار آئے

اسی جانب کو پھر اٹھیں قدم بے اختیار آئے

جو آئے میکدے سے بے خود و مستانہ وار آئے

کہیں ایسا نہ ہو با ہوش کوئی بادہ خوار آئے

دل و ایماں و دیں ہوش و خرد کچھ بھی نہیں باقی

کسی کی ہم نگاہ ناز کا صدقہ اتار آئے

بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں

 بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں

لوگ یوں تجھ سے بچھڑنے کا سبب پوچھتے ہیں

کیا تمسخر ہے بلندی بھی کہ اب حال اپنا

پہلے جن لوگوں نے پوچھا نہیں اب پوچھتے ہیں

اپنا پیکر نہیں پہچان بدل کر آؤ

یہ وہ محفل ہے جہاں نام و نسب پوچھتے ہیں

کہاں سے لائیں گے آنسو عزا داری کے موسم میں

 کہاں سے لائیں گے آنسو عزا داری کے موسم میں 

بہت کچھ رو چکے ہم تو اداکاری کے موسم میں 

اتر آؤں گا میں بھی زینۂ ہستی سے یوں اک دن 

کہ جیسے رنگ رخ اترے ہے ناداری کے موسم میں 

تمہارے خط کبھی پڑھنا کبھی ترتیب سے رکھنا 

عجب مشغولیت رہتی ہے بیکاری کے موسم میں 

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

 اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ہم سے خوش فہموں کا یارو یہ خیال اچھا ہے

نہ حرام اچھا ہے یارو نہ حلال اچھا ہے

کھا کے پچ جائے جو ہم کو وہی مال اچھا ہے

صرف نعروں سے غریبی تو نہیں مٹ سکتی

ملک سے سارے غریبوں کو نکال، اچھا ہے

ہر سمت سلگتا ہے غربت کا شرر اب تک

 ہر سمت سلگتا ہے غربت کا شرر اب تک

روٹی کو ترستا ہے دنیا میں بشر اب تک

تم جتنا ستم ڈھا لو لیکن یہ حقیقت ہے

مظلوم کی آہوں میں باقی ہے اثر اب تک

جس سمت نظر اٹھے اس سمت بہاراں ہو

تجھ سا تو نہیں دیکھا انداز نظر اب تک

Saturday, 9 August 2025

نام سرکار نے خود شیر خدا رکھا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ایسے حیدرؑ کو زمانے سے جدا رکھا ہے

نام سرکارﷺ نے خود شیرِ خدا رکھا ہے

علم کے شہر کا در میرے علیؑ مولا ہیں

ہے بڑا شہر سو دروازہ بڑا رکھا ہے

طالبؑ و جعفرِ طیارؑ،۔ عقیلؑ و حیدرؑ

ان میں ایماں ابو طالبؑ کا چھپا رکھا ہے 

دوست کہتے ہیں کہ بچوں کی طرح روئی تھی میں

 جانتے ہو تم کو کھو کر خود سے بھی بچھڑی تھی میں

دوست کہتے ہیں کہ بچوں کی طرح روئی تھی میں

وہ بھی اس نے موسموں کی گفتگو میں کھو دئیے

زندگی سے چند لمحے مانگ کر لائی تھی میں

رو پڑی میں آشنا لہجے کو پا کر اجنبی

لوگ سمجھے ہیں کہ شاید بے سبب روئی تھی میں

منتشر خواب کی تعبیر سناؤں تجھ کو

 منتشر خواب کی تعبیر سناؤں تجھ کو

یعنی پھر ایک نیا خواب دکھاؤں تجھ کو

جب تلک تیشۂ فرہاد سے ٹپکے نہ لہو

محرمِ رازِ وفا کیسے بناؤں تجھ کو

ہے تو پژمردگئ گل ہی بہاروں کی دلیل

کیا میں احساسِ خزاں سے نہ بچاؤں تجھ کو

جن کی خاطر سب سے بیگانے ہوئے

 جن کی خاطر سب سے بیگانے ہوئے 

ہائے وہ لمحے بھی افسانے ہوئے 

پھر کسی کے ہو نہ پائے عمر بھر 

آپ کے ہو کر جو بیگانے ہوئے 

کس سے کہئے اپنے قاتل ہیں وہی 

تھے مسیحا جن کو گردانے ہوئے 

اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا

 اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا

سویرے جیسے ہی آنکھیں کھلی سورج نظر آیا

گیا متھرا بنارس اور کعبہ ہر جگہ لیکن

ملا دل کو سکوں جب لوٹ کر میں اپنے گھر آیا

پڑی ہے مار جب سے وقت کی ڈرنے لگا ہوں میں

چڑھا تھا جو جوانی کا نشہ پل میں اتر آیا

وہ ہزار ہم پہ جفا سہی کوئی شکوہ پھر بھی روا نہیں

 وہ ہزار ہم پہ جفا سہی کوئی شکوہ پھر بھی روا نہیں

کہ جفا تو ان کی خطا نہیں جنہیں کوئی قدر وفا نہیں

مری بد ظنی پہ یہ رنجشیں تو کسی بھی طور بجا نہیں

کہ جہان عشق میں بد ظنی تو حضور جرم و خطا نہیں

مرے عشق کو تری بے رخی ہی نصیب ہے تو یہی سہی

تری بے رخی رہے شادماں مجھے بے رخی کا گلا نہیں

Friday, 8 August 2025

گزرے یہ عمر عشق نبی کے حصول میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل سے دعا یہ مانگی ہے سجدوں کے طول میں

گزرے یہ عمر عشقِ نبیﷺ کے حصول میں

آیا ہوں گُل کی آس میں پیارے رسولﷺ میں

خارِ گُنہ ہے دامنِ عصیاں ببول میں

اے کاش خواب میں ہو زیارت حضورؐ کی

یہ بات راس آئے دعائے قبول میں

زخم دل کا ہو مداوا مجھے منظور نہیں

 زخمِ دل کا ہو مداوا مجھے منظور نہیں

زیست کا میری سہارا ہے یہ ناسور نہیں

مانگتا ہوں میں تجھے تجھ سے نیا ہے یہ سوال

بات رد کرنا گدا کی تیرا دستور نہیں

آپ آ جائیں دمِ نزع مجھے لینے کو

آپ کی شانِ کرم سے تو یہ کچھ دور نہیں

میں تو سمجھا تھا مرا کردار ہی مارا گیا

 میں تو سمجھا تھا مرا کردار ہی مارا گیا

اس کہانی میں کہانی کار ہی مارا گیا

دشمنی کرنے کا پھر کیا فائدہ ہے تو بتا

میں ترے ہاتھوں اگر بیکار ہی مارا گیا

میں خیال یار کی سوچوں کو سوچوں کس طرح

میں خیال یار میں سو بار ہی مارا گیا

ناقوس کی صداؤں سے اور نہ اذان سے

 ناقوس کی صداؤں سے اور نہ اذان سے

نفرت ہے اس کو ملک کے امن و امان سے

ملت فروش کو کسی ملت سے کیا غرض

اس کو تو ہے غرض فقط اپنی دکان سے

چھلنی جو کر گیا تھا اجودھیا کو رام کی

نکلا تھا تیر وہ بھی اسی کی کمان سے

ہمارے بیچ انا پہلے تازیانہ رہی

 ہمارے بیچ انا پہلے تازیانہ رہی

پھر اسے کے بعد ہر اک بات دوستانہ رہی

ہمارے ساتھ روش جن کی دشمنانہ رہی

انہی سے اپنی محبت بھی جاودانہ رہی

وفا کی بات تو سنتے رہے بزرگوں سے

ہمارے واسطے لیکن یہ یہ اک فسانہ رہی

کہنے کو کہہ دے کوئی کہ تم سے جدا ہوا

 کہنے کو کہہ دے کوئی کہ تم سے جدا ہوا

ورنہ یہ فاصلہ بھی ہے تم سے ملا ہوا

اس میں خطا نہیں تھی، یہ میرا نصیب تھا

میری وفا سے آپ کو اکثر گِلہ ہوا

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

ایسا لگے کہ پھول ہوں کوئی کِھلا ہوا

Thursday, 7 August 2025

اب کے میں روضۂ سرکار سے ہو آیا ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اب کے میں روضۂ سرکار سے ہو آیا ہوں

اتنا خوش بخت کہ دربار سے ہو آیا ہوں

اتنا سبزہ ہے طراوت نہیں جاتی دل سے

میں مدینے کے چمن زار سے ہو آیا ہوں

اب کوئی ایک بھی منظر نہ جچے آنکھوں میں

آپﷺ کے کوچہ و بازار سے ہو آیا ہوں

گو سدا تم نے کج ادائی کی

 گو سدا تم نے کج ادائی کی

ہم نے ہر ظلم کی سمائی کی

دل کے دل میں رہے میرے ارماں

آ گئی عمر پارسائی کی

اس کے وعدے کا اعتبار کیا

جس کی عادت ہو بیوفائی کی

ہم حسن بے حجاب سے پرہیز کیا کریں

 اس درد لا جواب سے پرہیز کیا کریں

ہوتی نہیں جناب سے پرہیز کیا کریں

اے تجربات زندگی! پہلا پڑاؤ ہے

غلطی کے ارتکاب سے پرہیز کیا کریں

خود ہی تو دی ہیں اے خدا دنیا کی لذتیں

ہم لوگ دستیاب سے پرہیز کیا کریں

خوشیاں یاد نہیں ہیں اور غم یاد نہیں

 خوشیاں یاد نہیں ہیں اور غم یاد نہیں

کیسا ہمدم ہے جس کو ہم یاد نہیں؟

ایک عرصے سے بھُولا ہُوا ہوں میں اُس کو

ہوئیں تھیں میری آنکھیں کب نم یاد نہیں

ہم تو ازل سے تنہا تھے سو تنہا ہیں

غم وہ ملے ہیں خوشی کا عالم یاد نہیں

اگرچہ جان کا خطرہ نئی اڑان میں تھا

 اگرچہ جان کا خطرہ نئی اڑان میں تھا

پرندہ پھر بھی بہت دور آسمانوں میں تھا

ملی جو منزل امکاں بہ جستجوئے ہزار

عجیب نشہ سفر در سفر تکان میں تھا

اسی نے گھر کے چراغوں کی لو بڑھائی ہے

شمار جس کا کبھی ننگ خاندان میں تھا

یہ دنیا ہر قدم پر آدمی کا امتحاں کیوں ہے

یہ دنیا ہر قدم پر آدمی کا امتحاں کیوں ہے

جدا ہر آدمی سے آدمی کا کارواں کیوں ہے

محبت ساری دنیا کے لیے روح رواں کیوں ہے

سیاست کے فلک پر آج نفرت کا دھواں کیوں ہے

ہوا تو مختلف ہے نہ موافق بھی مخالف بھی

معطر ان ہواؤں سے ہمارا جسم و جاں کیوں ہے

Wednesday, 6 August 2025

رحمتوں سے ہے بھرپور کوئے نبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نورِ حق سے ہے معمور کوئے نبیﷺ

رحمتوں سے ہے بھرپور کوئے نبیﷺ

تجھ سے نسبت ہے اس واسطے میرے سب

ہو گئے درد کافور کوئے نبیﷺ

یہ تمنا ہے جاؤں میں اس کے قریب

یا خدا ہے بہت دور کوئے نبیﷺ

جنوں نے زہر کا پیالہ پیا آہستہ آہستہ

 جنوں نے زہر کا پیالہ پیا آہستہ آہستہ

یہ شعلہ راکھ میں ڈھلنے لگا آہستہ آہستہ

بہت نازک ہیں احساسات ہم ارماں پرستوں کے

نہ ہم کو ٹھیس لگ جائے صبا آہستہ آہستہ

بجا ساز وفا لیکن ذرا دھیمے بجا مطرب

بپا ہے حشر سا دل میں صدا آہستہ آہستہ

نہیں فائدہ کوئی تدبیر سے

 نہیں فائدہ کوئی تدبیر سے

گلا کاٹ بچپن کا شمشیر سے

سراپا نہ لے جائیں آنکھیں سنبھل

بدن ڈھانپ لے برگِ انجیر سے

ستاروں کو زینہ بنا اور چڑھ

عبث خوف کھاتا ہے تقدیر سے

زندگی اس کے سوا اب اور حل کوئی نہیں

 زندگی اس کے سوا اب اور حل کوئی نہیں

موت ہے اور موت کا نعم البدل کوئی نہیں

دل کسی بھی بات پر قائم نہیں رہتا کبھی

فیصلہ جیسا بھی ہو ہوتا اٹل کوئی نہیں

ہاتھ ہے اور دسترس میں کچھ نہیں رکھا گیا

باغ ہے لیکن وہاں موسم کا پھل کوئی نہیں

بھلا ہو اس کا جو رستے میں مجھ کو ڈال گیا

 بھلا ہو اس کا جو رستے میں مجھ کو ڈال گیا

زمانہ سنگ سمجھ کر مجھے اچھال گیا

شجر بھی زور سے جس کے زمین بوس ہوئے

وہی تو جھونکا ہوا کا مجھے سنبھال گیا

تڑپ رہی ہے نظر آج بھی اسی کے لئے

وہ ایک جلوہ جو دل کو مرے اجال گیا

ہو رہا جو تم سمجھے فیصلہ خدا کا ہے

 ہو رہا جو تم سمجھے فیصلہ خدا کا ہے

یہ صلہ تو انساں کی اپنی ہی خطا کا ہے

لگ گئی وبائے بے اعتباری انساں کو

پوچھیے نہ مجھ سے حال اب کہ جو دوا کا ہے

حالت دل ناداں کیوں بگڑتی جائے ہے

اب کہ مجھ پہ سایہ شاید کسی بلا کا ہے

Tuesday, 5 August 2025

میری آنکھوں کو بھی یہ حسن سعادت ہو نصیب

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میری آنکھوں کو بھی یہ حسن سعادت ہو نصیب

اسود و گنبدِ خضری کی زیارت ہو نصیب

سرد ہوتی ہوئی سانسوں کی تمنا ہے یہی

کلمۂ پاک کی جاں بخش حرارت ہو نصیب

جس سے ہو جائیں خدا اور محمدﷺ راضی

مجھ کو وہ ذوقِ عمل، ذوقِ عبادت ہو نصیب

عمر گزری کہ تجھے ہم نے بھلا رکھا ہے

 عمر گزری کہ تجھے ہم نے بھلا رکھا ہے

اپنے ہر جاننے والے کو بتا رکھا ہے

نہ سہی وصل کوئی جسم تو ہو پہلو میں

مجھ کو تنہائی نے دیوانہ بنا رکھا ہے

ہیں نشہ کے سبھی سامان مرے کمرے میں

اور ایک طاق پہ زاہد کا خدا رکھا ہے

ہم ترا نام لے کے چلنے لگے

 آرزوؤں کے شہر جلنے لگے

کارواں ساتھ ساتھ چلنے لگے

تیری آنکھوں سے مے چھلکنے لگی

اور گر گر کے ہم سنبھلنے لگے

اک محبت تھی اور کچھ بھی نہیں

ہم ترا نام لے کے چلنے لگے

ایسی صورت میں بھی اب اشک رواں ہوتا ہے

 ایسی صورت میں بھی اب اشک رواں ہوتا ہے

چوٹ لگتی ہے کہاں، درد کہاں ہوتا ہے

تیرگی شب کی یوں دیتی ہے اذیت مجھ کو

دن ابھرتے ہوئے مرنے کا گماں ہوتا ہے

آپ کے ہونے سے یہ راز چمن ہم پہ کھلا

پھول کھلتا ہے تو خوشبو میں جواں ہوتا ہے

دل کی تسکین کی دوا کیا ہے

 دل کی تسکین کی دوا کیا ہے

دوستوں سے بھلا چھپا کیا ہے

یہ لہو تو نہیں مرے محبوب

تیری رگ رگ میں دوڑتا کیا ہے

ہجر کے دن وصال کی راتیں

چاہنے والے چاہتا کیا ہے

نہ ہو تو جس میں وہ دل بھی ہے کیا دل

 نہ ہو تو جس میں وہ دل بھی ہے کیا دل

💜 نکما دل برا دل بد نما دل

بتوں کو دے دیا نام خدا دل

سخاؔ میری بھی کیا ہمت ہے کیا دل

اٹھے آغوش سے جب درد اٹھا

ہلے پہلو سے جب وہ ہل گیا دل

Monday, 4 August 2025

وجود سید عالم نشان رحمت ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وجودِ سیدِ عالمﷺ نشانِ رحمت ہے

زمانے بھر پہ یہی سائبانِ رحمت ہے

محمدﷺ و علیؑ و زہراؑ و حسینؑ و حسنؑ

یہ خانداں ہی فقط خاندانِ رحمت ہے

اسی کا ذکر تو قرآں میں حق نے فرمایا

"حضور! آپﷺ کا اُسوہ جہانِ رحمت ہے"

ایک مدت ہو گئی غم سے شناسائی ہوئے

 ایک مدت ہو گئی غم سے شناسائی ہوئے

ہم اسے اپنا سمجھ کر اس کے شیدائی ہوئے

جب خلوص یار میں شامل تصنع ہو گیا

ہم بھی کیا کرتے اسیر دشت تنہائی ہوئے

فاصلوں نے قربتوں پر ڈال دی ہے خاک سی

ایک عرصہ ہو گیا ہے بزم آرائی ہوئے

درد سے کس طرح نباہ کروں

 درد سے کس طرح نباہ کروں

کیوں نہ اب دل کو وقف آہ کروں

اے غزل! تجھ کو گنگناؤں میں

اور خود کو یوں ہی تباہ کروں

کتنی دشواریوں سے گزرا ہوں

ضبط کب تک میں اپنی آہ کروں

بات ضد کی ہے سوال آئینہ خانے کا نہیں

 بات ضد کی ہے سوال آئینہ خانے کا نہیں

تم بلاؤ گے بھی مجھ کو تو میں آنے کا نہیں

قرض کی شکل میں ہر سانس ادا ہوتی ہے

زندگی ہے یہ کوئی خواب دوانے کا نہیں

وقت کے جبر سے محفوظ نہ رہ پاؤ گے

حوصلہ تم میں اگر ضرب لگانے کا نہیں

مری جاں سرسری ملنے سے کیا معلوم ہوتا ہے

 مری جاں سرسری ملنے سے کیا معلوم ہوتا ہے

پرکھنے سے بشر کھوٹا کھرا معلوم ہوتا ہے

تمہارے دل میں اور میرا تصور ہو نہیں سکتا

تمہارے دل میں کوئی دوسرا معلوم ہوتا ہے

ترے قدموں سے یہ ویرانہ جنت ہو گیا گویا

مجھے دنیا سے اپنا گھر جدا معلوم ہوتا ہے

پھولوں سے رسم و راہ کیے جا رہا ہوں میں

 پھولوں سے رسم و راہ کیے جا رہا ہوں میں

امرت سمجھ کے زہر پئے جا رہا ہوں میں

اک انس ہو گیا ہے غم عاشقی کے ساتھ

دانستہ اک گناہ کیے جا رہا ہوں میں

جس کی مجھے زمانے سے قیمت نہ مل سکی

وہ کائنات درد لیے جا رہا ہوں میں

Sunday, 3 August 2025

آپ کی ذات ہے مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپ کی ذات ہے مدینے میں 

جو بڑی بات ہے مدینے میں

جو میسر نہیں قرار یہاں 

اس کی بہتات ہے مدینے میں

جس میں ہر خواب پورا ہوتا ہے 

وہ حسیں رات ہے مدینے میں

اٹھے گی ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ

اٹھے گی ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ

نظر آ جائے گا یہ انقلاب، آہستہ آہستہ

ہمیشہ عشق میں صبر و سکوں سے کام چلتا ہے

دلِ ناکام ہو گا کامیاب، آہستہ آہستہ

یہ رسوائی تو لازم تھی مگر اتنا کیا میں نے

ہوا رسوا زمانے میں شباب، آہستہ آہستہ

مال و اسباب بیچ ڈالیں گے

 مال و اسباب بیچ ڈالیں گے

مجھ کو احباب بیچ ڈالیں گے

وہ جو بازار کے کھلاڑی ہیں

تیرا ہر خواب بیچ ڈالیں گے

کل تو سوکھے کو بیچ ڈالا تھا

اب کے سیلاب بیچ ڈالیں گے

گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور

 گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور

ہاں نظر آتے ہیں ایسے ہی کچھ آثار حضور

کارواں یوں ہی بھٹکتا رہے ہر بار حضور

نیک نیت نہ ہوں گر قافلۂ سالار حضور

وہ جو از خود ہی بنے بیٹھے ہیں سردار حضور

وقت اک دن انہیں لائے گا سر دار حضور

یہ دل ہی جلوہ گاہ ہے اس خوش خرام کا

 یہ دل ہی جلوہ گاہ ہے اس خوش خرام کا

دیکھا تو صرف نام ہے بیت الحرام کا

معنی میں لفظ ایک ہے یہ رب و رام کا

حاصل یہ ہے کہ ہے وہی حاصل کلام کا

دیکھا تو سب حقیقت و معنی میں ایک ہیں

صورت میں گرچہ فرق ہے آپس میں نام کا

کتنا رنجیدہ تھا وہ اب کے جدا ہوتے ہوئے

 کتنا رنجیدہ تھا وہ اب کے جدا ہوتے ہوئے

جانے اس نے کیا کہا تھا مجھ سے پھر روتے ہوئے

اب تو وہ منظر بھی جیسے ہو گیا ہے خواب خواب

دیکھنا آغوشِ شب میں چاند کو سوتے ہوئے

کھلنے لگتے تھے مِرے احساس کے صحرا میں پھول

مسکرا دیتا تھا وہ جب بھی خفا ہوتے ہوئے

Saturday, 2 August 2025

لکھ صل علی صل علی پہلے قلم سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لکھ صل علٰی، صل علٰی پہلے قلم سے

پھر عرض گزار اپنی شہنشاہِ اُممؐ سے

ہر عہد کا، ہر قسم کا ابلیس فنا ہو

لا حول ولا قوۃ لکھ اپنے قلم سے

ہے آپؐ کا ہر اسم اجالوں کی ضمانت

ہوتی ہے سحر سورۂ یاسین کے دم سے

چراغ جل تو رہے ہیں مگر اندھیرا ہے

 چراغ جل تو رہے ہیں مگر اندھیرا ہے

نہ جانے شہر میں کیا اور ہونے والا ہے

اندھیرا گھر سہی لیکن بہت اجالا ہے

نہ جانے آج یہاں کون آنے والا ہے

یہ شخص دیکھنے میں اجنبی نہیں لگتا

نہ جانے کون سی بستی کا رہنے والا ہے

یوں شہر کے بازار میں کیا کیا نہیں ملتا

 یوں شہر کے بازار میں کیا کیا نہیں ملتا

پر حسن میں ثانی کوئی تیرا نہیں نہیں ملتا

جو کچھ دل ناکام نے چاہا نہیں ملتا

منزل نہیں ملتی، کبھی رستا نہیں ملتا

لہجہ نہیں ملتا، کبھی چہرہ نہیں ملتا

دنیا میں ہمیں ایک بھی تم سا نہیں ملتا

دوریاں ہی دوریاں ہیں قربتوں کے باوجود

 دوریاں ہی دوریاں ہیں قربتوں کے باوجود

اجنبی ہیں سب قریبی نسبتوں کے باوجود

رنگ و بو سے جان تو کاغذ میں پڑ سکتی نہیں

کاغذی گل کاغذی ہیں نکہتوں کے باوجود

سختیٔ صحرا نوردی ہی مسرت بخش ہے

دل نہیں لگتا قفس میں راحتوں کے باوجود

پاس وفا کا مجھ کو احساس ہے یہاں تک

 پاس وفا کا مجھ کو احساس ہے یہاں تک

دل رو رہا ہے لیکن لب پر نہیں فغاں تک

کتنی روایتوں میں ترمیم ہو رہی ہے

پہنچا ہے جب سے انساں دہلیز آسماں تک

برسوں اٹھائے ہم نے احسان رتجگوں کے

برسوں کے بعد پہنچے ہم منصب فغاں تک

تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہمسفر رہا

 تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہمسفر رہا

میں راہ آرزو میں اکیلا کبھی نہ تھا

یہ اور بات رات جواں تھی جواں رہی

ساقی اداسیوں کے مجھے جام دے گیا

بازار وقت سے کہاں جنس وفا گئی

تنہا ہے ماہ مصر کا جلتا ہوا دیا

Friday, 1 August 2025

اے یاد نبی مجھ کو رلانے کے لیے آ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سب رنج و الم دل سے بھلانے کے لیے آ

اے یادِ نبیﷺ مجھ کو رلانے کے لیے آ

اے گنبدِ خضرا کے ضیاء بار تصور

تُو پیاس نگاہوں کی بجھانے کے لیے آ

آواز لگاتا ہوں تجھے میری قضا سن

طیبہ میں مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

دراز کر رہے ہو ظلم کی رسی کتنی

 وقتِ ابتلاء ابتلائے وقت


تیرا گریباں، تیرا دامن، تیرا آشیاں زد پہ

اب اگر ظلم کے ہاتھ نہ روکے تُو نے

اس سے پہلے کہ آس و یاس یک جان ہو جائیں

اس سے پہلے کہ سب کے سب بے اماں ہو جائیں

سرعت سے اسی قدر لپیٹی جائے گی

دراز کر رہے ہو ظلم کی رسی کتنی

وفاداری کا دعویٰ کر رہے ہو

 وفاداری کا دعویٰ کر رہے ہو

تو کیوں دنیا کی پروا کر رہے ہو

سمجھتے بھی ہو خوابوں کی حقیقت

مگر خوابوں کا پیچھا کر رہے ہو

اسی سے تم جھگڑتے بھی ہو ہر پل

اسی کی ہی تمنا کر رہے ہو

جسے تیرے غم نے سنوارا نہیں ہے

 جسے تیرے غم نے سنوارا نہیں ہے

نہیں ہے وہ آنسو ہمارا نہیں ہے

کٹے زندگی دوسروں کے کرم پہ

ہمیں ایسا جینا گوارا نہیں ہے

بتاؤ ہمیں اب تمہیں یہ بتاؤ

کہاں ہم نے تم کو پکارا نہیں ہے

محفل مجلس کو رونا ہے

سوز دروں


 محفل مجلس کو رونا ہے

دیکھیں کس کس کو رونا ہے

کیا اپنا اور کون پرایا

اب تو جس تس کو رونا ہے

اہلِ دُول تو کچھ کر لیں گے

کیا پھر مفلس کو رونا ہے؟

کیسے نبھے گی سوچتا صبح سے لے کر شام

 کیسے نبھے گی سوچتا صبح سے لے کر شام

اس کی خصلت نیم سی، میری طبیعت آم

قدم قدم پر پیڑ تھے یوں تو سائے دار

سورج کاندھے پر لیے گھوما صبح سے شام

کل یُگ کے ہم واسی ہیں الگ الگ پہچان

تُو بھی تو رادھا نہیں، میں بھی نہیں گھنشام