تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے
نیشتر اور سہی کارِ دگر اور سہی
دلِ صد چاک اگر اذنِ رفو دیتا ہے
تابِ فریاد بھی دے لذتِ بیداد بھی دے
ہم تو برباد ہوئے برگِ خزاں کی صورت
شاخِ گل! کون تجھے ذوقِ نمو دیتا ہے
منصفو! ہاتھ سے اب دشنہ و خنجر رکھ دو
کیا برا ہے اگر انصاف عدو دیتا ہے
اے خدا وند! مِرے شعر کی قیمت کیا ہے
ایک روٹی کا نوالہ جسے تُو دیتا ہے
حسن عابدی
No comments:
Post a Comment