Monday, 3 October 2016

تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے

تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے
نیشتر اور سہی کارِ دگر اور سہی
دلِ صد چاک اگر اذنِ رفو دیتا ہے
تابِ فریاد بھی دے لذتِ بیداد بھی دے
دینے والے جو مجھے سوزِ گلو دیتا ہے
ہم تو برباد ہوئے برگِ خزاں کی صورت
شاخِ گل! کون تجھے ذوقِ نمو دیتا ہے
منصفو! ہاتھ سے اب دشنہ و خنجر رکھ دو
کیا برا ہے اگر انصاف عدو دیتا ہے
اے خدا وند! مِرے شعر کی قیمت کیا ہے
ایک روٹی کا نوالہ جسے تُو دیتا ہے

حسن عابدی

No comments:

Post a Comment