Sunday, 25 December 2016

لب و رخسار و جبیں سے ملئے

لب و رخسار و جبیں سے مِلیے
جی نہیں بھرتا کہیں سے ملیے 
یوں نہ اس دل کے مکیں سے ملیے 
آسماں بن کے زمیں سے ملیے 
بجھ گیا دل تو پھر خرابی ہو گی 
پھر کسی شعلہ جبیں سے ملیے 
گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائ تک 
کیا کسی پردہ نشیں سے ملیے 
جی نہ بہلے رم و آہو سے تو پھر 
طائر سدرہ نشیں سے ملیے 
کیوں حرم میں یہ خیال آتا ہے
اب کسی دشمنِ دِیں سے ملیے
وہ،۔ حاکمِ دوراں تو نہیں 
مت ڈریں انکی نہیں سے ملیے​

اسرار ناروی

ابن صفی

No comments:

Post a Comment