Friday, 16 October 2020

لذت آشنائی میں کھویا ہوا اجنبی

 پاتال زمین آسمان


کہانی کے سارے پرندے

بہت دور شاید افق میں

کہیں منجمد ہو گئے ہیں

شجر زرد پتوں کی تصویر بن کر

علامت کی تحریر بن کر

بکھرنے لگا ہے

کسی جھیل کے آئینے میں وہ مہ وش

بدن کے کسی زاویے سے نکلنے کی خواہش میں

پلکیں اٹھائے ہوئے دیکھتی رہ گئی ہے

پرندوں کی مانند میں بھی یہاں تھا

مگر اب نہیں ہوں

کہ ہونے کی خواہش نے شاید مجھے بھی

خلا میں معلق ستاروں کی مانند گم کر دیا ہے

نہ اب موسموں کے ستم ہیں

نہ اب رات کی سرد آمیزشوں میں ٹھٹھرنے کی راحت ہی آواز دیتے ہیں مجھ کو

نہ پتھر کی مانند ہاتھوں میں سورج

رگ و پے میں میرے لہو کی حرارت بنے گا

زمانہ کوئی شعبدہ گر

مجھے دور ہی دور لے جا رہا ہے

کہ میں نیم وا غار کی سیڑھیوں میں اترنے لگا ہوں

چراغ طلسمات ملنے سے پہلے

زمین نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہے

دعا بد دعا بن گئی ہے

کہ ہر لفظ کے دائرے سے لہو رس رہا ہے

کسی سانحے نے زمیں سے فلک کی طرف جاتے جاتے

مجھے بھی ستاروں میں گم کر دیا ہے

کہ میں اپنے سائے کی دہلیز پر

لذت آشنائی میں کھویا ہوا اجنبی ہوں


احمد ظفر

No comments:

Post a Comment