Wednesday, 23 June 2021

ستم کے بعد بھی باقی کرم کی آس تو ہے

 ستم کے بعد بھی باقی کرم کی آس تو ہے

وفا شعار نہیں وہ وفا شناس تو ہے

وہ دل کی بات زباں سے نہ کچھ کہیں شاید

ہمارے حال پہ چہرہ مگر اداس تو ہے

یہ دلفریب بنارس کی صبح کا منظر

اودھ کی شام دلآرا ہمارے پاس تو ہے

بھرم رہے گا ترے میکدے کا بھی ساقی

بلا سے خالی سہی ہاتھ میں گلاس تو ہے

چلے ہی جائیں نگاہوں سے دور آپ مگر

حسین یادوں کی دولت ہمارے پاس تو ہے

کرے بھلے ہی نہ رحمت کی مجھ پر تو بارش

تِرے کرم کی مِرے دل میں ایک آس تو ہے

یہ سچ ہے اس نے بجھائی نہ تشنگی لیکن

ہماری تشنہ دہانی کا اس کو پاس تو ہے

درست ہے کہ فرشتہ صفت نہیں دانش

خدا گواہ بصیرت کی اس کو پیاس تو ہے


دانش فراہی

No comments:

Post a Comment