Tuesday 26 April 2022

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم

 تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم


آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت

درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح

بے وفا وعدوں کی دلداری کا انداز لیے

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے


رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح

صبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح

شاخ خوں رنگ تمنا میں گلِ تر کی طرح

تم نہیں آؤ گے جب تب بھی تو تم آؤ گے


یاد کی طرح دھڑکتے ہوئے دل کی صورت

غم کے پیمانۂ سرشار کو چھلکاتے ہوئے

برگ ہائے لب و رخسار کو مہکاتے ہوئے

دل کے بجھتے ہوئے انگارے کو دہکاتے ہوئے


زلف در زلف بکھر جائے گا پھر رات کا رنگ

شب تنہائی میں بھی لطف ملاقات کا رنگ

روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام

روز گائے گی سحر تہنیت جشن فراق


آؤ آنے کی کریں باتیں کہ تم آئے ہو

اب تم آئے ہو تو میں کون سی شے نذر کرو

کہ مِرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں

ایک خوں گشتہ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں


علی سردار جعفری

No comments:

Post a Comment