Saturday 23 April 2022

جہاں علم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں

 جہاں علم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں 

میں اس زمین پہ پاؤں بھی رکھنے والا نہیں 

میں اس درخت کے اندر تھا جس کو کاٹا گیا 

کسی نے بھی تو وہاں سے مجھے نکالا نہیں 

وہ اپنے عہد سے آگے کی باتیں کرنے لگا 

بہکتے شخص کو دنیا نے پھر سنبھالا نہیں 

ہر ایک چوٹ پہ کچھ اور جڑنے لگتا تھا 

سو اس نے مجھ کو کسی شکل میں بھی ڈھالا نہیں 

عجیب خوف میں پروان چڑھ رہی ہے یہ نسل 

کسی کے ہاتھ میں بھی زہر کا پیالہ نہیں 

اب اپنی سانسوں سے زنجیر توڑنی ہے مجھے 

کہ ہاتھ بیچنے کا اور کچھ ازالہ نہیں 


وقار خان 

No comments:

Post a Comment