عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ دین محمدﷺ کا تیرے نام سے زندہ ہے
اللہ کا بھی کلمہ تیرے نام سے زندہ ہے
پھیلی ہیں زمانے میں توحید کی تنویریں
گونجی ہیں تیرے دم سے کونین میں تکبیریں
حق تجھ سے ہے پائندہ تیرے نام سے زندہ ہے
تعبیرِ خلیلؑ ہے تُو اور فخر مسیحا کا
تُو وارثِ آدمؑ ہے، موسٰیؑ کا تو کہنا کیا
جب نامِ شہ بطحہؐ تیرے نام سے زندہ ہے
مِنی کی سند بخشی تجھے سرورِ عالمؐ نے
پھر یہ بھی کہا میں ہوں شبیرؑ تیرے دم سے
شبیرؑ تیرا ناناؐ تیرے نام سے زندہ ہے
فطرُس تو فرشتہ تھا حُر کو بھی اماں دی ہے
جاں ابنِ مظاہر کو اور دین کو بخشی ہے
یہ دینِ نبیﷺ حق کا تیرے نام سے زندہ ہے
والفجر میں تُو شامل تطہیر میں تُو شامل
کوثر کی مودت کی تفسیر میں تُو شامل
والعصر کا بھی سورہ تیرے نام سے زندہ ہے
عہدِ نبوی علوی، دورِ حسنی کے بعد
اسلام تنِ بے جاں اکسٹھ ہجری کے بعد
تیرے نام سے زندہ تھا تیرے نام سے زندہ ہے
بیعت بھی نہ لے پایا سر بھی نہ جھُکا پایا
ظالم کو کیا رُسوا سرورؑ نے سرِ نیزہ
قرآن بھی اے آقاؑ تیرے نام سے زندہ ہے
اُمت پہ محمدﷺ کی ہوا شیطانوں کا راج
مکہ بھی مدینہ بھی تیرے بعد ہوئے تاراج
یہ قبلہ یہ کعبہ تیرے نام سے زندہ ہے
یہ جو دین کا چرچہ ہے شبیرؑ کا صدقہ ہے
احسان تیرا حق پر یہ ثانئ زہراؑ ہے
شبیرؑ کا سجدہ تیرے نام سے زندہ ہے
سرورؑ کی نشانی اب کوئی بھی نہیں باقی
اک چھوڑ دی جنگل میں اک شام میں دفنا دی
دُکھ بانوئےؑ مضطر کا تیرے نام سے زندہ ہے
ویسے تو شہادت ہے میراث تیرے گھر کی
یاں اصغرؑ و اکبرؑ کی تفریق نہیں پھر بھی
مفہوم شہادت کا تیرے نام سے زندہ ہے
سائے کی ضرورت ہے نہ ہی ٹھنڈے پانی کی
ماں کہتی تھی اصغرؑ کی بُلوا لو مجھے والی
یہ کنیز شاہِ والاؑ تیرے نام سے زندہ ہے
ماں کا بھی نہ رکھا مان نہ ہی پالنے والی کا
دن رات وظیفہ اور نوحہ تھا یہ لیلیٰؑ کا
اکبرؑ یہ تیری آیت تیرے نام سے زندہ ہے
آئیں گے مجھے لینے اک روز میرے بھیّا
پھر بیاہ رچاؤں گی میں شوق سے بھیّا کا
اکبرؑ وہ تیری صغریٰؑ تیرے نام سے زندہ ہے
شبیرؑ کی لختِ جگر اک رات کی وہ بیاہی
رُخصت بھی نہ ہو پائی اور بیوہ کہلائی
قاسمؑ وہ تیری بیوہ تیرے نام سے زندہ ہے
عاشور سے زنداں تک رُوداد مظالم کی
تُو نے ہی سُنائی ہے شبیرؑ کی شہزادی
یہ ماتم یہ نوحہ تیرے نام سے زندہ ہے
شبیرؑ کا مرثیہ خواں شبیرؑ کا شاعر بھی
پہچان یہی ہے اب تیرے سبطِ جعفر کی
صد شُکر تیرا بندہ تیرے نام سے زندہ ہے
سبط جعفر
No comments:
Post a Comment