Saturday, 15 October 2016

ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا

ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی
ہر صبح سُلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا 
اپنا تو نہیں تھا میں کبھی اورغموں نے
مارا مجھے ایسا، رہا تیرا نہ خدا کا
پھیلے ہوئے ہر سمت جہاں‌ حرص و ہوس ہوں
پھولے گا، پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا کا
ہاتھوں کی لکیریں‌ تجھے کیا سمت دکھائیں
سُن وقت کی آواز کو،۔ رُخ دیکھ ہوا کا
لقمان و مسیحا نے بھی کوشش تو بہت کی
ہوتا ہے اثر اس پہ دعا کا، نہ دوا کا
اس بار جو نغمہ تِری یادوں‌ سے اٹھا ہے
مشکل ہے کہ پابند ہو الفاظ و صدا کا
اتنی تِرے انصاف کی دیکھی ہیں‌ مثالیں
لگتا ہی نہیں مُلک تِرا، مُلک خدا کا
سمجھا تھا وہ اندر کہیں پیوست ہے مجھ میں 
دیکھا تو مِرے ہاتھ میں آنچل تھا صبا کا

سعید احمد اختر 

No comments:

Post a Comment