ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا
سنتے رہے ہم، لب پہ تِرا نام نہ آیا
دیوانے کو تکتی ہیں تِرے شہر کی گلیاں
نکلا، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
کیا جانیے کیا بیت گئی دن کے سفر میں
وہ منتظرِ شام سرِ شام نہ آیا
یہ تشنگیاں کل بھی تھیں اور آج بھی زیدی
اس ہونٹ کا سایہ بھی مِرے کام نہ آیا
سنتے رہے ہم، لب پہ تِرا نام نہ آیا
دیوانے کو تکتی ہیں تِرے شہر کی گلیاں
نکلا، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
کیا جانیے کیا بیت گئی دن کے سفر میں
وہ منتظرِ شام سرِ شام نہ آیا
یہ تشنگیاں کل بھی تھیں اور آج بھی زیدی
اس ہونٹ کا سایہ بھی مِرے کام نہ آیا
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment