Tuesday, 15 November 2016

دل ابھی تک جوان ہے پیارے

دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
رات کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے
تلخ کر دی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے
جانے کیا کہہ دیا تھا روزِ ازل
آج تک امتحان ہے پیارے
کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ
تیرا اپنا گمان ہے پیارے
میں تجھے بے وفا نہیں‌ کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے
تیرے کوچے میں ‌ہے سکوں ورنہ
ہر زمین آسمان ہے پیارے

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment