Tuesday 22 December 2020

ہر ظلم ترا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں

 ہر ظلم ترا یاد ہے، بھُولا تو نہیں ہوں

اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں

ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا

میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کےہاتھوں

مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں

مضطر کیوں مجھے دیکھتا رہتا ہے زمانہ

دیوانہ سہی، ان کا تماشا تو نہیں ہوں


آفتاب مضطر

No comments:

Post a Comment