Tuesday, 23 February 2021

لوہار جانتا نہیں

 لوہار جانتا نہیں


ہمارے گاؤں کا لُہار اب درانتیاں بنا کے بیچتا نہیں

وہ جانتا ہے فصل کاٹنے کا وقت کٹ گیا سروں کو کاٹنے کے شغل میں

وہ جانتا ہے بانجھ ہو گئی زمین جب سے لے گئے نقاب پوش گاؤں کے مویشیوں کو شہر میں

جو برملا صدائیں دے کے خشک خون بیچتے ہیں بے یقین بستیوں کے درمیاں

اُداس دل، خموش اور بے زباں کباڑ کے حصار میں سیاہ کوئلوں سے گفتگو

تمام دن گزارتا ہے، سوچتا ہے کوئی بات روح کے سراب میں

کُریدتا ہے خاک اور ڈھونڈتا ہے چُپ کی وادیوں سے سُرخ آگ پر وہ ضرب

جس کے شور سے لُہار کی سماعتیں قریب تھیں

بجائے آگ کی لپک کے، سرد راکھ اُڑ رہی ہے دھُونکنی کے منہ سے

راکھ، جس کو پھانکتی ہے جھونپڑی کی خستگی

سیاہ چھت کے ناتواں ستون، اپنے آنکڑوں سمیت پیٹتے ہیں سر

حرارتوں کی بھیک مانگتے ہیں جھونپڑی کے بام و در

جو بھٹیوں کی آگ کے حریص تھے

دھوئیں کے دائروں سے کھینچتے تھے زندگی

مگر عجیب بات ہے ہمارے گاؤں کا لُہار جانتا نہیں

وہ جانتا نہیں کہ بڑھ گئی ہیں سخت اور تیز دھار خنجروں کی قیمتیں

سو جلد بھٹیوں کا پیٹ بھر دے سُرخ آگ سے


علی اکبر ناطق

No comments:

Post a Comment