جہاں تک یادِ یار آتی رہے گی
فسانے غم کے دہراتی رہے گی
لہو دل کا نہ ہو گا ختم جب تک
محبت زندگی پاتی رہے گی
بھُلائے گا زمانہ مجھ کو جتنا
مِری ہر بات یاد آتی رہے گی
بجاتا چل دِوانے ساز دل کا
تمنا ہر قدم گاتی رہے گی
سنوارے گا تو جتنا زلفِ ہستی
یہ ناگن اتنا بَل کھاتی رہے گی
جہاں میں موت سے بھاگو گے جتنا
یہ اتنا بانہیں پھیلاتی رہے گی
تمنائیں مِری پوری نہ کرنا
مِری دیوانگی جاتی رہے گی
یہ دنیا جب تلک قائم ہے نوشاد
ہمارے گیت دہراتی رہے گی
نوشاد علی
No comments:
Post a Comment