Friday, 5 November 2021

سمندروں کو اٹھائے پھری گھٹا برسوں

 سمندروں کو اٹھائے پھری گھٹا برسوں

مگر میں پیاس نہ اپنی بچھا سکا برسوں

بس اتنا یاد ہے تجھ سے ملا تھا رستے میں

پھر اپنے آپ سے رہنا پڑا جدا برسوں

میں ایک عمر بھٹکتا رہا ہوں صحرا میں

کہ میری خاک اڑاتی رہی ہوا برسوں

ہمی نے دامنِ شب کو نہ ہاتھ سے چھوڑا

سحر کے گیت سناتی رہی صبا برسوں

نسیم شاخِ گل تر سے کیوں الجھتی ہے

چمن میں پھول اگر پھر نہ کھل سکا برسوں

تمہی نے راہِ وفا پر قدم رکھا نہ کبھی

چراغ بن کے میں ہر موڑ پر جلا برسوں

کرن کرن مجھے پرواز کی نوید ہے آج

رہا ہوں تیری فضاؤں میں پر کشا برسوں


الطاف پرواز

No comments:

Post a Comment