وہ پیش رو ہے مگر راستا نہیں دیتا
بزرگ ہو کے بھی دیکھو دعا نہیں دیتا
مجھے یہ کیسا سمندر صدائیں دیتا ہے
جو مجھ کو ڈوبنے کا حوصلہ نہیں دیتا
کسی کسی کو تھماتا ہے چابیاں گھر کی
وہ میرے پھول مِری تتلیاں کہاں دے گا
جو ننگی شاخ کو پتہ ہرا نہیں دیتا
وہ اپنا روپ مجھ کس طرح عطا کر دے
کہ جب تلک میری صورت مٹا نہیں دیتا
جدید کپڑے اسے کیا جوانیاں دیں گے
جو بوڑھی سوچ کو چہرا نیا نہیں دیتا
مکان کاسۂ غربت میں ہو گئے تبدیل
دروں پر اب کوئی سائل صدا نہیں دیتا
میان میں کہاں رکھے گا تیغ وہ جب تک
زمیں کو خون کا دریا بنا نہیں دیتا
دکھائی دے گا ہمیں کیسے اشکؔ عید کا چاند
ہماری آنکھوں کو جب تک بجھا نہیں دیتا
پروین کمار اشک
No comments:
Post a Comment