Monday, 3 October 2016

وہ پیش رو ہے مگر راستہ نہیں دیتا

وہ پیش رو ہے مگر راستا نہیں دیتا
بزرگ ہو کے بھی دیکھو دعا نہیں دیتا
مجھے یہ کیسا سمندر صدائیں دیتا ہے
جو مجھ کو ڈوبنے کا حوصلہ نہیں دیتا
کسی کسی کو تھماتا ہے چابیاں گھر کی
خدا ہر ایک کو اپنا پتا نہیں دیتا
وہ میرے پھول مِری تتلیاں کہاں دے گا
جو ننگی شاخ کو پتہ ہرا نہیں دیتا
وہ اپنا روپ مجھ کس طرح عطا کر دے
کہ جب تلک میری صورت مٹا نہیں دیتا
جدید کپڑے اسے کیا جوانیاں دیں گے
جو بوڑھی سوچ کو چہرا نیا نہیں دیتا
مکان کاسۂ غربت میں ہو گئے تبدیل
دروں پر اب کوئی سائل صدا نہیں دیتا
میان میں کہاں رکھے گا تیغ وہ جب تک
زمیں کو خون کا دریا بنا نہیں دیتا
دکھائی دے گا ہمیں کیسے اشکؔ عید کا چاند
ہماری آنکھوں کو جب تک بجھا نہیں دیتا

پروین کمار اشک

No comments:

Post a Comment