Sunday, 20 November 2016

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
مقامِ گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہمنشیں مجھ سے وہ چشمِ سرمہ سا کیا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھتا مقام کبریا کیا ہے
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے

علامہ محمد اقبال

بال جبریل

No comments:

Post a Comment