خاک اوڑھے ہوئے اک خواب کی تعبیر کا دُکھ
اس کو کھا جائے گا اک دن میری تشہیر کا دکھ
تم نے زنداں میں فقط میری اسیری دیکھی
اب دِلا💖! دیکھ ذرا پاؤں کی زنجیر کا دکھ
جس نے کاٹا ہے جوانی میں بڑھاپے کا سفر
آ، بتاتی ہوں تجھے ہائے میرے وِیر کا دکھ
وقتِ رخصت وہ جو پلکوں میں چھپایا تم نے
دل میں اب تک بھی جواں ہے اسی اک نِیر کا دکھ
عشق میں خاک جو چھانو گے، سمجھ جاؤ گے
بوڑھے برگد کے تلے بیٹھے ہوئے پِیر کا دکھ
ہاں وہی جھنگ جہاں ونگ کے چرچے ہیں بہت
پر میرے دل میں نہاں رہتا ہے اِک ہیر کا دکھ
ورنہ شعروں میں تِرے موت سی وحشت ہو گی
ہائے تجھ کو نہ لگے میر تقی میر کا دکھ
وہ جو پل پل رہا مصروف کہ میں گر جاؤں
کیسے سہہ پائے گا زریں میری تعمیر کا دکھ
زریں منور
No comments:
Post a Comment