Monday, 25 October 2021

زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب

 زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب

بھوگ رہا ہوں مدت سے تنہائی کا کرب

یہ تو سرخ سلگتا سورج ہی جانے ہے

کتنا بھیانک ہوتا ہے تنہائی کا کرب

ذہن کا میرے روز بدل دیتا ہے موسم

شام ڈھلے سوندھا سوندھا انگنائی کا کرب

رہ جا کر بے چہرہ لوگوں کی بستی میں

مسخ شدہ آنکھوں میں رکھ بینائی کا کرب

توڑ رہا ہے کیوں متحیر آئینے اسلم؟

غور طلب ہے تیری خود آرائی کا کرب


اسلم حنیف

No comments:

Post a Comment