عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کون ہو مسند نشیں خاکِ مدینہ چھوڑ کر
خُلد دیکھے کون، کُوئے شاہِ بطحٰی چھوڑ کر
دل کی بستی اور ارمانوں کی دنیا چھوڑ کر
ہائے کیوں لوٹے تھے ہم شہرِ مدینہ چھوڑ کر
گھر سے پہنچے اُنؐ کے روضے پر تو ہم کو یوں لگا
جیسے آ نکلے کوئی گُلشن میں، صحرا چھوڑ کر
کون نظروں پر چڑھے حُسنِ حقیقت کے سوا
کس کا منہ دیکھیں ہم اُن کا روئے زیبا چھوڑ کر
اللہ، اللہ، آمدِ سلطانِ انس و جاںﷺ کی شان
اک طرف قُدسی بھی ہو جاتے تھے، رستہ چھوڑ کر
مصطفیٰﷺ جنت میں جائیں گے نہ اُمت کے بغیر
جا نہیں سکتا کبھی تنکوں کو دریا چھوڑ کر
تھی نہ چاہت دل میں زہراؑ کے دُلاروں کی اگر
کیوں اُترتے تھے نبیؐ، منبر سے خطبہ چھوڑ کر
رہروانِ راہِ حق تھے اور بھی لاکھوں، مگر
کوئی منزل پر نہ پہنچا ابنِ زہراؑ چھوڑ کر
ان صحابہؓ کے اس اندازِ قناعت پر سلام
انؐ کی چوکھٹ پر جو آ بیٹھے تھے کیا کیا چھوڑ کر
وہ ازل سے میرے آقاﷺ، میں غلام ابنِ غلام
کیوں کسی کے در پہ جاؤں انؐ کا صدقہ چھوڑ کر
خوانِ شاہی کی ہوس رکھتے نہیں ان کے گدا
کیوں اُدھر لپکیں، وہ ان ٹکڑوں کا چسکا چھوڑ کر
وہ سلامت اور اُنﷺ کا در سلامت تا ابد
کیوں پھریں در در ہم اس کوچے کا پھیرا چھوڑ کر
میں کہاں گھوموں، کہاں ٹھہروں، کسے دیکھا کروں
اُنؐ کی گلیاں، اُنؐ کی جالی، اُنؐ کا روضہ چھوڑ کر
اتفاقاً گر چلے جاتے وہﷺ ساحل پر کبھی
مچھلیاں آتیں قدم لینے کو، دریا چھوڑ کر
ذہن میں رکھیے وہ ارشادِ نبیﷺ وقتِ وصال
جا رہا ہوں سنت و قرآں کو یکجا چھوڑ کر
اے مسلماں! ہے یہی حکمِ خدا و مصطفیٰﷺ
فکرِ عقبٰی کر ہمیشہ، فکرِ دنیا چھوڑ کر
پوچھنے پھر کون آئے گا نصیر اُنؐ کے سوا
جس لحد میں تجھ کو سب لوٹیں گے تنہا چھوڑ کر
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment