Sunday, 23 July 2023

سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اس کو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُسؑ کو

تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے

کہو کہ خامسِ آلِ عباؑ کہیں اس کو

خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی

کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا

اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اس کو

فروغِ جوہرِ ایماں، حسینؑ ابنِ علیؑ

کہ شمعِ انجمنِ کِبریا کہیں اس کو

کفیلِ بخششِ اُمت ہے، بن نہیں پڑتی

اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی

ستم ہے کشتۂ تیغِ جفا کہیں اس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل

شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اس کو

عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات

کہ جن و انس و ملَک سب بجا کہیں اس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسینؑ بلند

بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرۂ خاک

کہ لوگ جوہرِ تیغِ قضا کہیں اس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے

اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اس کو

ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسنِ صبر کی داد

مگر نبیﷺ و علیؑ مرحبا کہیں اس کو

زمامِ ناقہ کف اس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں

پس از حسینِؑ علیؑ پیشوا کہیں اس کو

وہ ریگِ تفتۂ وادی میں گام فرسا ہے

کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد

پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں

علیؑ سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ

بُرا نہ مانیے گر ہم بُرا کہیں اس کو

علیؑ کے بعد حسنؑ، اور حسنؑ کے بعد حسینؑ

کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اس کو

نبیﷺ کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے

رکھے امامؑ سے جو بُغض، کیا کہیں اس کو

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد

غلط نہیں ہے کہ خُونیں نوا کہیں اس کو


مرزا غالب

No comments:

Post a Comment