Monday, 2 October 2023

دل تری یاد میں ہر غم سے جدا تھا پہلے

 دل تِری یاد میں ہر غم سے جدا تھا پہلے

ان درختوں کی طرح میں بھی ہرا تھا پہلے

لے گیا لوٹ کے خوابوں کی وہ نقدی بھی تمام

حاکمِ شہر بھی لگتا ہے گدا تھا پہلے

سامنے آ کے بھی فریاد نہیں سنتا تھا

شاید اس شہر میں پتھر کا خدا تھا پہلے

اب وہی نام جو ہونٹوں پہ نہیں لا سکتے

اک وہی نام تو بس حرفِ دعا تھا پہلے

میں جو برباد ہوا خوش ہوئے چہرے کتنے

مجھ سے لگتا ہے کہ ہر شخص خفا تھا پہلے

تم جو آئے تو چلی بادِ بہاری ہر سُو

سانس لینا بھی یہاں ورنہ سزا تھا پہلے

تجھ کو دیکھا تو ملی جلوہ نمائی اس کو

آئینہ، ورنہ کہاں چشم کشا تھا پہلے

اب جسے سوچ کے زخموں میں جلن ہوتی ہے

سچ تو یہ ہے کہ وہی میری دوا تھا پہلے


اشرف کمال

No comments:

Post a Comment