Monday, 2 October 2023

زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا

 زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا

کرم یار کا نشتر کبھی ایسا تو نہ تھا

پھول جو مجھ کو دئے بن گئے وہ انگارے

وقت عیار و ستم گر کبھی ایسا تو نہ تھا

بستیاں راز کی اشکوں میں بہی جاتی ہیں

موجزن غم کا سمندر کبھی ایسا تو نہ تھا

آج دست طلب اٹھے تو قلم ہو جائے

دور محرومیٔ ساغر کبھی ایسا تو نہ تھا

آنے والے نہیں جب وہ تو یہ رونق کیسی

آج جیسا ہے مِرا گھر کبھی ایسا تو نہ تھا

چھن گئی ہو نہ تجلی کہیں دیواروں سے

شور مےخانے کے باہر کبھی ایسا تو نہ تھا

پاؤں رکھا تھا جہاں سرو میں خم ہے اب تک

جادۂ عشق میں پتھر کبھی ایسا تو نہ تھا


کوثر جائسی

No comments:

Post a Comment