Friday 13 September 2024

بارش رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بارشِ رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

اے خدا، نعت فقط حرف و بیاں تک نہ رہے

اے مِرے آتشِ فارس کے بجھانے والے

اس طرح ہجر بجھا دیں کہ دھواں تک نہ رہے

شہرِ طیبہ کی سکونت جو ہمیں مل جائے

عشرتِ زیست ہے کیا خواہش جاں تک نہ رہے

صاحبِ شقِ قمر جس پہ عنایت کر دیں

وہ اگر آئینہ جوڑے تو نشاں تک نہ رہے

سینۂ سنگ میں حشرات بھی پڑھتے ہیں سلام

سلسلے مدح کے پتھر کی زباں تک نہ رہے

روز محشر تھا مِرا نام ثناء خوانوں میں

یعنی یہ شعر میرے ایک جہاں تک نہ رہے


ابوالحسن خاور

No comments:

Post a Comment