Wednesday 22 September 2021

دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے

 دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے

خامشی مرحلۂ عرضِ سخن تک پہنچے

محرمِ حسنِ بہاراں تو نہیں ہو سکتی

وہ نظر صرف جو گلہائے چمن تک پہنچے

زندگی نام اسی موجِ مئے ناب کا ہے

میکدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے

گلستانوں کا اجارہ نہیں فصلِ گل پر

فصلِ گل وہ ہے جو ہر دشت و دمن تک پہنچے

عہد ہم نے بھی کیا تھا نہ ملیں گے اس سے

بارہا ہم بھی اسی عہدِ شکن تک پہنچے

بات کرتا ہے بظاہر بڑی سادہ سی کمال

جو سخنور ہیں وہی اس کے سخن تک پہنچے


کمال احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment