Wednesday, 22 September 2021

جونک بن کے خرابے میں خواہش کے جوہڑ میں اتری ہوئی

 ناگزیر


جونک بن کے خرابے میں

خواہش کے جوہڑ میں اتری ہوئی

ایک ہرنی سے لپٹے ہوئے خون پیتا رہوں

ہاں وہی ہرنی جو سبز رُت میں فراوانئ رزق سے

ڈنٹھلوں میں اترتی خماری سے مدہوش ہوتی رہی ہو

اور اپنی طبیعت کے افتاد سے تھوڑی فربہ بھی ہو

رنگ بھرتا رہوں کاسنی، گیروی، زرد یا احمریں

کینوس پہ بکھرتی تھرکتی ہوئی ایک تصویر میں

جو مسلسل نگاہی سے دشوار ہو

یعنی میری توجہ کے بھاری ہتھوڑوں سے بیزار ہو

پھر وہ بانہیں نکالے مجھے بھینچ لے

تیز رندے کی صورت کترنے لگے

ہاتھ کی انگلیاں آنکھ کی پتلیاں

میں برادہ برادہ بکھرنے لگوں استعارہ بنوں

اور تخیل کے جوہڑ سے نکلی ہوئی ایک انجان

ہرنی کا چارہ بنوں

جو مجھے پوری رغبت سے چرنے لگے

اپنی امید کا پیٹ بھرنے لگے


ذوالقرنین حسنی

No comments:

Post a Comment