Friday, 22 October 2021

قاتل ہے جو میرا وہی اپنا سا لگے ہے

 قاتل ہے جو میرا، وہی اپنا سا لگے ہے

دنیا سے جدا ہو کے وہ دنیا سا لگے ہے

ہر شام مِرے دل میں ہے یادوں سے چراغاں

ہر شام مِری پلکوں پہ میلا سا لگے ہے

کس حال پہ چھوڑے ہے مجھے گردشِ ایام

سبزہ بھی جہاں دیکھے ہوں صحرا سا لگے ہے

باطل کے جلائے ہوئے دیپک کا ہے چرچا

جو سچ کا ہے سورج وہ تماشا سا لگے ہے

ساون کی بہاروں سا وہی حسن کا پیکر

کہنے کو ہے بے گانہ پر اپنا سا لگے ہے


اظہر شمس

No comments:

Post a Comment