Tuesday, 1 March 2022

یہی ہے دور غم عاشقی تو کیا ہو گا

 یہی ہے دورِ غمِ عاشقی تو کیا ہو گا؟

اسی طرح سے کٹی زندگی تو کیا ہو گا

ابھی تو ہم نفسوں کو ہے وہمِ چارہ گری

ہوئی نہ درد میں پھر بھی کمی تو کیا ہو گا

یہ تیرگی تو بہر حال چھٹ ہی جائے گی

نہ راس آئی ہمیں روشنی تو کیا ہو گا

امید ہے کہ کبھی تو لبوں پہ آئے گی

کبھی نہ آئی لبوں پر ہنسی تو کیا ہو گا

نفس نفس میں فغاں ہے نظر نظر میں ہراس

کچھ اور دن یہی حالت رہی تو کیا ہو گا


فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment