ظلم ہوتے ہیں یوں ہی ہم پہ برابر ہوں گے
آئینے ہوں گے جہاں پر وہیں پتھر ہوں گے
فتح کر لیں گے تِرا دل تِرے اندر ہوں گے
ورنہ ہم نے بھی قسم کھائی بے گھر ہوں گے
ایک ٹیبل پہ ہو اک چائے🍵 اکیلے ہم تم
سوچئے کتنے حسیں صبح کے منظر ہوں گے
بعد تیرے نہیں دیکھا ہے پلٹ کر گلشن
مجھ کو معلوم ہے اب پھول بھی خنجر ہوں گے
ہم نے ٹھانا ہے تیرے دل پہ حکومت کرنا
دیکھنا ہم بھی کسی روز سکندر ہوں گے
مجھ کو ٹھکرا کے کہیں دور اگر جاؤ گے
میرے سب آنسو تیری راہ کے پتھر ہوں گے
کھینچ کر لائے ہیں جو پیاس کو سوئے مقتل
دیکھنا کل انہیں قدموں میں سمندر ہوں گے
خود ہی نمرود کی اب آگ بجھانی ہے ہمیں
اب نہ پیدا کسی آنگن میں پیمبر ہوں گے
آزمائش میرے اشکوں کی بہت مشکل ہے
بے سبب یہ نہ میری آنکھوں سے باہر ہوں گے
غم بکھرتے تھے جہاں چن کے اٹھا لیتے تھے
کیا خبر تھی کی کسی روز سخن ور ہوں گے
اپنے ماں باپ کو پلکوں پہ بٹھا کر رکھو
آج مل جائیں گے یہ کل نہ میسر ہوں گے
دل! اگر اس کی مشیت کو جلال آئے گا
آسماں جو بھی بنے ہیں وہ زمیں پر ہوں گے
دل سکندر پوری
No comments:
Post a Comment