Saturday 25 September 2021

غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر

 غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر

زمیں پہ رہتے ہیں کچھ لوگ آسماں بن کر

اڑے ہیں جو تِرے قدموں سے خاک کے ذرے

چمک رہے ہیں فلک پر وہ کہکشاں بن کر

جنہیں نصیب ہوئی ہے تِرے بدن کی نسیم

مہک رہے ہیں زمیں پر وہ گلستاں بن کر

میں اضطراب کے عالم میں رقص کرتا رہا

کبھی غبار کی صورت کبھی دھواں بن کر

مِری صداؤں کو اب تو پناہ مل جائے

تجھے پکار رہا ہوں تِری زباں بن کر

میں اس زمین کی وسعت پہ سیر کرتا ہوں

فلک کے چاند ستاروں کا رازداں بن کر

مسرتوں کی فضا میں سدا وہ رہتے ہیں

جو غم کے ماروں سے ملتے ہیں مہرباں بن کر

انہیں کو شانِ چمن یہ زمانہ کہتا ہے

چمن کو لوٹ رہے ہیں جو باغباں بن کر

میں حرف حرف جسے پڑھ چکا ہوں اے افضل

ورق ورق پہ وہ بکھرا ہے داستاں بن کر


افضل الہ آبادی

No comments:

Post a Comment