Friday, 15 July 2022

ہے ایک سیل ندامت اس آبگینے میں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


ہے ایک سیلِ  ندامت اس آبگینے میں 

عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں 

اسی زمیں اسی مٹی سے نور پُھوٹا تھا 

اسی دیار، اسی رُت، اسی مہینے میں 

ہے بند آنکھ میں بھی عکسِ مسجدِ نبوی 

جَڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں 

کسی نے اسمِ محمدﷺ پڑھا تو ایسا لگا 

کہ جیسے کوئی پرندہ اُڑا ہو سینے میں 

میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی 

سُلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں 

مہِ حجاز کھلے آسماں میں ہے اور میں 

بھٹک رہا ہوں کسی بے چراغ زینے میں 

پلٹ کے آیا نہیں جنت البقیع سے میں 

گڑا ہوا ہے مِرا دل اُسی دفینے میں 

کسی حدیث کی خوشبو مجھے بتاتی ہے 

مہک گلاب کی تھی آپﷺ کے پسینے میں 

سعود یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے 

میں اپنے شہر میں ہوں، اور دل مدینے میں


سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment