Tuesday 19 July 2022

جب کبھی چہرے سے وہ پردہ اٹھا دیتے ہیں

 جب کبھی چہرے سے وہ پردہ اُٹھا دیتے ہیں

پھول بھی اپنی نگاہوں کو جھکا دیتے ہیں

اُجڑے گلشن میں ہم پھول کھلا دیتے ہیں

دشت و صحرا کو بھی گلزار بنا دیتے ہیں

ہم اگر سوئے ہیں تو خیر منا اپنی تُو

ہوش میں آتے ہیں تو حشر اُٹھا دیتے ہیں

ہم ہیں دیوانے بھلا کب کسی کی سن لی ہے

دیدۂ شوق میں جاں اپنی لُٹا دیتے ہیں

تم نے لوگوں سے سنا کاش کہ ہم سے سنتے

لوگ توبات کا افسانہ بنا دیتے ہیں

بیقراری میں نہ جانے ہمیں کیا ہوتا ہے

رات بھر لکھتے ہیں خط صبح جلا دیتے ہیں

جانے والے تو بتا کر نہیں جاتے ہیں

مگرجاتے جاتے کچھ اشاروں میں بتا دیتے ہیں

جب بھی تنہائی کے موسم میں تڑپتے ہیں

ہم تیری تصویر کو سینے سے لگا دیتے ہیں

رنج و غم ہو کہ خوشی کا کوئی موسم

اشہر سارے موسم بخدا اپنا مزا دیتے ہیں


اشہر اشرف

No comments:

Post a Comment