Thursday, 2 July 2020

کتنے بے درد ہیں صرصر کو صبا کہتے ہیں

 کتنے بے درد ہیں صرصر کو صبا کہتے ہیں

کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں

میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں

غم نہیں، گر لبِ اظہار پر پابندی ہے

خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں

کشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں

اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں

کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی

آج بھی "پیشِ بتاں"، نامِ خدا کہتے ہیں

یوں تو محفل سے تری اٹھ گئے سب دل والے

ایک دیوانہ تھا، وہ بھی نہ رہا، کہتے ہیں

یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے

چارہ گر موت کو تکمیلِ شفا کہتے ہیں

بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا

دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں

آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں

میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں

ان کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں

مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں

میری فریاد کو اس عہد ہوس میں ناصر

ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں


نوابزادہ نصراللہ خاں ناصر

No comments:

Post a Comment