حُسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا
صرف اک حُسنِ نظر ہے تِرے دیوانے کا
عشق رُسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی
اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا
کار فرما تِرے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ
شمع سے دُور کا رشتہ نہیں پروانے کا
حُسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا
صرف اک حُسنِ نظر ہے تِرے دیوانے کا
عشق رُسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی
اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا
کار فرما تِرے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ
شمع سے دُور کا رشتہ نہیں پروانے کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سارے عالم کے غمگسار سلام
آپﷺ پر جان و دل نثار سلام
چاند ٹکڑے ہو اک اشارے پر
ایسے مولا پہ بے شمار سلام
سارے نبیوں کے آپ ہی ہیں امام
ہم کریں کیوں نہ بار بار سلام
مزاجِ زندگی میں قہر بھی ہے مہربانی بھی
اسی اڑتے ہوئے بادل میں بجلی بھی ہے پانی بھی
جمالِ موت پر قدرت نے پردے ڈال رکھے ہیں
وگر نہ بار ہو جاتا خیالِ زندگانی بھی
سماعت خود تصور کے جھروکے کھول دیتی ہے
بڑی نظارہ پرور ہے صدائے لن ترانی بھی
پتے کی طرح ٹوٹ کے نظروں سے گرا ہوں
ہر رنگ سے میں برسر پیکار رہا ہوں
مجھ کو ورق دفتر فرسودہ نہ سمجھو
ہر دور کے دیوان کا میں نغمہ سرا ہوں
صدیوں سے مسلط تھا وہ اک لمحۂ جاوید
تنہائیٔ شب میں جو کبھی تجھ سے ملا ہوں
دل حبیبوں نے دُکھایا ہے کوئی بات نہیں
فرض تھا ان کا نبھایا ہے کوئی بات نہیں
میرے مونس میرے یاروں نے دوا کے بدلے
زہر گر مجھ کو پلایا ہے کوئی بات نہیں
سادگی دل کی تو دیکھو کہ فریبِ اُلفت
جانتے بُوجھتے کھایا ہے کوئی بات نہیں
سکون ہے دن کو میسر نہ شب کو سونے میں
تمام عمر کٹی دل کے داغ دھونے میں
یہ جانتی ہیں بہت دن سے انگلیاں میری
ہے کس کے لمس کی خوشبو مِرے بچھونے میں
میں آدھی رات کو بستر پہ چونک اٹھتا ہوں
سسک رہا ہوں کوئی جیسے گھر کے کونے میں
لوگ جب اپنی حقیقت جاننے لگ جائیں گے
زندگی سے زندگی کو مانگنے لگ جائیں گے
دور کرئیے آستینوں سے انہیں ورنہ ضرور
ایک دن یہ سانپ سر پے ناچنے لگ جائیں گے
ریت ہو یا راکھ ہو برباد مت کرئیے اسے
کیا پتہ کب لوگ ان کو پھانکنے لگ جائیں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب محمد مصطفیٰﷺ تشریف لائے عرش سے
بتکدہ میں جتنے تھے بت منہ کے بل سب گر پڑے
چپکے چپکے جب عبادت ہو چکی چالیس سال
تب وحی آئی; کہ اعلانِ نبوت کیجیے
تیس دن روزہ ملا اور پانچ وقتوں کی نماز
لے کے تحفہ اُمتی کے واسطے واپس ہوئے
خدا سے اُسے مانگ کر دیکھتے ہیں
پھر اپنی دُعا کا اثر دیکھتے ہیں
ہمیں ہیں مُسافر، ہمیں آبلہ پا
تماشہ اے گردِ سفر دیکھتے ہیں
ادھر آ اے حسنِ تمنا! ادھر آ
نظر بھر تجھے اک نظر دیکھتے ہیں
مزدور
آ بتاؤں میں تجھے حالت ہے کیا مزدور کی
آ دکھاؤں میں تجھے پُر درد اس کی زندگی
کس طرح اس کو رہا سرمایہ داری سے نیاز
کس طرح مزدور نے کی محفلوں میں خواجگی
کس طرح انسان کی وہ ٹھوکریں کھاتا رہا
جانور کی سی بسر کی اس نے کیونکر زندگی
کس توقع پہ شریک غم یاراں ہوں گے
یاد ہم کس کو بھلا اے دل ناداں ہوں گے
رونق بزم بہت اب بھی سخنداں ہوں گے
ان میں کیا ہم سے بھی کچھ سوختہ ساماں ہوں گے
ہم پہ جو بیت گئے بیت گئی بیت گئی
کیا کہیں آپ سنیں گے تو پشیماں ہوں گے
میری مُٹھی میں سُورج آ گیا ہے
مِرے اندر اندھیرا چھا گیا ہے
میں خُوشیاں بانٹنے نکلا ہوں گھر سے
میرے رستے میں تُو کیوں آ گیا ہے
میں اب سچائیاں لکھنے لگا ہوں
مِرا ہر لفظ کیوں پتھرا گیا ہے
دشت کے اسرار سے پردہ اٹھا صحرا نورد
آبلے پاؤں کے ہم کو بھی دکھا صحرا نورد
ریگ، طوفانوں، سرابوں، گرم ریتوں کی قسم
کچھ بھی اپنے دوستوں سے مت چھپا صحرا نورد
گھنٹیاں اونٹوں کی، نغمے ساربانوں کے سنے
کچھ نہ کچھ تو یاد ہو گا، آ سُنا صحرا نورد
ہوتی ہے ان کی ہم پہ عنایت کبھی کبھی
آتی نظر ہے چاند سی صورت کبھی کبھی
غیروں کے مشورے کے لیے وقف رات دن
مجھ سے مگر ہے ملنے کی فرصت کبھی کبھی
غصہ میں ان کو دیکھ کے مجھ کو گماں ہوا
آتی ہے اس طرح بھی قیامت کبھی کبھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تسبیحِ محمدﷺ میں یوں مصروف قلم ہو
الہام کی رم جھم ہو، تصور میں حرم ہو
رنگوں میں دھلے حرف ہوں، خوشبو میں بسے لفظ
اندازِ ثناء ہم سرِ معیارِ ارم ہو
ہر شے میں تِرا عکس ابھارا ہے خدا نے
تخلیقِ بہاراں ہو کہ ترتیبِ ارم ہو
اداس تم ہی نہیں ہو حیات ہے شاید
تھکی تھکی سی کہیں کائنات ہے شاید
رکی رکی سی یہ سانسیں اور جھکی سی نگاہ
اس اک بات میں اک اور بات ہے شاید
میں تم کو جیت رہا ہوں تمہیں پتہ ہی نہیں
یہ اور بات کہ میری ہی مات ہے شاید
جو دکھائے نہ تماشے وہ تماشے والا
یہ جو سرکس ہے یہ سرکس نہیں چلنے والا
اُڑتے پِھرتے ہوں پرندے یا ہوں پنجرے میں قید
حال جانے ہے کِھلونوں کا کِھلونے والا
یہ نہ سمجھو کہ گیا بھول بنا کر دنیا
ہر خبر میلے کی رکھتا ہے وہ میلے والا
زندگی میری بظاہر اک شکستہ ساز ہے
سننے والوں کے لیے آواز ہی آواز ہے
کون سی منزل پہ آ کر تھم گیا دردِ جگر
آج دل کی انجمن محرومِ سوز و ساز ہے
غالباً ٹوٹا کسی مظلوم کا تارِ نفس
دور تک آواز ہے آواز ہی آواز ہے
رقص بسمل (اقتباس)
ہر روز ایک آفت ہر شب نئی مصیبت
دل میں طپش ہے پنہاں اور بیقرار جی ہے
ہمدم ہیں رنج و کلفت، ہمدرد بے کسی ہے
مل جائے گی مجھے اب مر مٹنے ہی میں راحت
کب تک یہ ہر گھڑی کے صدمے سہے طبیعت
ہر عضو پر الم ہے رگ رگ میں بے کلی ہے
یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا
میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا
چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں
لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا
وہ حوصلہ کہ پھیر دے جو آندھیوں کے رخ
وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے مانجھی لیے چل مدینے مجھے
میرا مرشد ہے تُو اور مِرا رہبر
میں ہوں اس راہ سے آج تک بے خبر
احمدِ مصطفیٰﷺ رحمتِ دو جہاں
میرے مانجھی وہ سوئے ہوئے ہیں وہاں
اب نہ ہو گا وہ دیدارِ رُوئے حسیں
آہ یہ ہجر کے لمحات تمہیں کیا معلوم
شعلہ زن ہیں مِرے جذبات تمہیں کیا معلوم
تم نے ساحل سے ہی دیکھے ہیں سفینے سب کے
ڈوبنے والوں کے حالات تمہیں کیا معلوم
تم تو واقف ہی نہیں زہر کی لذت سے ابھی
کیسے کٹتی ہے مِری رات تمہیں کیا معلوم
سازش میں میرے قتل کی وہ مبتلا تو ہے
مجھ کو خوشی یہ ہے وہ مجھے سوچتا تو ہے
اچھا نہیں برا ہی سہی مانتا تو ہے
اس کے تخیلات میں میری جگہ تو ہے
اقبال، مال، عیش حکومت نہیں رہی
لیکن ہمارے پاس ہماری انا تو ہے
دم گھٹا جاتا ہے آئے کس طرح تازہ ہوا
کر گئی ہے بند آج ایک ایک دروازہ ہوا
کون سی آنکھوں سے دیکھوں زندگی کی بے بسی
چہرہ چہرہ مل رہی ہے موت کا غازہ ہوا
قہر پیہم ڈھا رہی ہے خوشبوؤں کے شہر میں
دیکھنا تم ایک دن بھگتے گی خمیازہ ہوا
نفرت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے آ
آ شمع محبت کو جلانے کے لیے آ
بے باک ہوا جاتا ہے اب درد جدائی
ابھرے ہوئے زخموں کو دبانے کے لیے آ
کب تک میں سنبھالوں تیری یادوں کی امانت
یہ بارِ گراں دل سے ہٹانے کے لیے آ
بغاوت میں رہا ہوں میں، بغاوت میں رہوں گا
محبت کا میں ہوں مجرم، ندامت میں رہوں گا
میں باطل کے عقیدوں کا ہوں کافر تو کہتا ہوں
شہیدِ راہِ الفت ہوں، شفاعت میں رہوں گا
کیا یوں چاک داماں کو، رفوگر نے دغا دے کر
بچی ہے عمر جتنی وہ، جراحت میں رہوں گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس دم وسیلہ رب کو تِرےﷺ نام کا دیا
دنیا میں اس نے مجھ کو طلب سے سوا دیا
ختمِ رُسل نبیﷺ کو بنایا خدا نے اور
قرآن دے کے دین مکمل کرا دیا
بوبکرؓ ہوں، عمرؓ ہوں کہ عثمانؓ یا علیؓ
اسلام کا سبھی کو خلیفہ بنا دیا
ایک ہی لفظ میں دفتر لکھنا
خط اسے سوچ سمجھ کر لکھنا
جب چلی تیز ہوا کی تلوار
کتنے پنچھی ہوئے بے پر لکھنا
چاندنی کس کا مقدر ٹھہری
کس کا تاریک رہا گھر لکھنا
تجھ سے ظالم کو پیار کون کرے
زندگی مفت خوار کون کرے
حالِ وحشت تو ان کو ہے معلوم
پیرہن تار تار کون کرے
پردہ در ہے کسی کا پردا ہی
حال یہ آشکار کون کرے
آرزو کا سفر
اک ستارہ
تِری سرمئی آنکھ میں
کہکشاؤں کی جھِلمل میں چھپنے لگا
صبح کی روشنی کی پھوار
میرے دل پر گِری
کب ستارا ہیں آپ بھی ہم بھی
اینٹ گارا ہیں آپ بھی ہم بھی
ہم خسارہ ہیں آپ بھی ہم بھی
گوشوارہ ہیں آپ بھی ہم بھی
کب زمانے کی ہم ضرورت ہے
بس گزارا ہیں آپ بھی ہم بھی
یہی تیری رحمت صلہ دے رہی ہے
مِری بے بسی بھی مزا دے رہی ہے
تُو پُورب تو پُوربا، تُو پچھم تو پچھوا
ہوا بھی تیرا ہی پتہ دے رہی ہے
میں دن رات تجھ کو کروں یاد کتنا
محبت تِری اب سزا دے رہی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قطرے سے مِرے دامن خالی کو بھر دیا
تُو نے سمندروں سے ہے پیالی کو بھر دیا
رکھا قدم حضورﷺ نے کس پیار سے کہ پھر
لاکھوں گُلوں سے ایک ہی ڈالی کو بھر دیا
تارے ہیں آسمان کی جھولی میں یا کہ پھر
خیرات سے فقیر کی تھالی کو بھر دیا
داغ ہیں دل کی یادگاروں میں
آگ لگ جائے ان بہاروں میں
ہے عجب دلکشی کا اک عالم
ان کی تصویر ہے نظاروں میں
آج جنسِ خلوص مہنگی ہے
اک نمائش ہے غمگساروں میں
ٹکرا رہے ہیں موج فریب جہاں سے ہم
ایسے میں تجھ کو لائیں جوانی کہاں سے ہم
مرہم کے باوجود بھی بھرتے نہیں ہیں زخم
واقف ہیں نشتر کرم دوستاں سے ہم
اللہ رے بے خودی کہ ہمیں پوچھنا پڑا
جائیں کدھر کو آئے ہیں یارو کہاں سے ہم
اگر وہ زلف ہو زنجیر میری
تو کھل جائے ابھی تقدیر میری
انہیں بھی بے کلی سے بے کلی ہے
غضب ہے آہِ پُر تاثیر میری
بدل ڈالی ہے اس نے دل کی دنیا
نگاہِ یار ہے تقدیر میری
نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی
لہو میں ظلمت شب انگلیاں بھگونے لگی
ہوا وہ جشن کہ نیزے بلند ہونے لگے
نیام تیغ کی خنجر کے ساتھ سونے لگی
جہاں میں دوڑ کے پہنچا تھا وہ گھنیری چھاؤں
ذرا سی دیر میں زار و قطار رونے لگی
رونے والوں نے تِرے غم کو سراہا ہی نہیں
رات خوش رہ کے بھی کٹ سکتی ہے سوچا ہی نہیں
نہ کہیں ابر کا گھونگھٹ،۔ نہ ہوا کی پازیب
دن کئی دن سے تِرے رنگ میں دیکھا ہی نہیں
تُو بھی ان اجڑے دیاروں میں ہے میری مانند
ایسا لگتا ہے کہ تُو نے مجھے دیکھا ہی نہیں
چرا لایا ہوں خود کا اپنا سایہ چھوڑ آیا ہوں
میں اُس کے آئینے میں اپنا چہرہ چھوڑ آیا ہوں
اب آنکھوں میں بسالے یا سپردِ آگ کر ڈالے
میں اُس کی ڈائری میں ایک سپنا چھوڑ آیا ہوں
اب آگے دیکھنا ہے زندگی کیا شکل دیتی ہے
میں چلتے چاک پہ خود کو ادھورا چھوڑ آیا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرکارِ مدینہؐ کی وساطت پہ نظر ہے
اُس رحمت عالمؐ کی شفاعت پہ نظر ہے
پائی وہ بلندی کہ ہے افلاک کو حیرت
رفعت کی ، نبی پاکؐ کی رفعت پہ نظر ہے
بِن مانگے عطا ہوتے ہیں دنیا کے خزانے
آقاﷺ تہی داماں ہوں، عنایت پہ نظر ہے
کسی کی بات میں آ کر جو آنا ہو تو مت آنا
اگر جانے کا پہلے سے بہانہ ہو تو مت آنا
کسی دن چائے پر آنا، تمہارا خیر مقدم ہے
میرے حالات پر جو رحم کھانا ہو تو مت آنا
میری آنکھوں کی تنہائی تمہیں بے چین کر دے گی
اگر کچھ بولنا، سننا، سنانا ہو تو مت آنا
قیامت کا کوئی ہنگام اُبھرے
اجالے ڈوب جائیں شام ابھرے
کسی تلوار کی قاتل زباں پر
لہو چہکے ہمارا نام ابھرے
گرے گلیوں کے قدموں پر اندھیرا
فضا میں روشنئ بام ابھرے
وہ مرے دل کا حال کیا جانے
ناز قدرِ نیاز کیا جانے
کعبہ جس کا ہو ابروئے جاناں
وہ طریقِ نماز کیا جانے
عشق ہر حال میں ہے حسن سے کم
غزنوی کو ایاز کیا جانے
تھک ہار کے بیٹھا ہوں کوئی آس نہیں ہے
یہ دور کسی طور مجھے راس نہیں ہے
کھلتے تو ہیں پھولوں کی طرح زخمِ جگر بھی
پھولوں کی طرح ان میں مگر باس نہیں ہے
تاریک فضاؤں میں کرن پھوٹ رہی ہے
صد شکر نئی فکر میں اب یاس نہیں ہے
اپنی پہچان گنوانے کے لیے راضی ہوں
میں تیرے شہر سے جانے کے لیے راضی ہوں
تو مجھے جھوٹ ہی کہہ دے کہ محبت ہے مجھے
میں تو قیمت بھی چکانے کے لیے راضی ہوں
عشق کہتا ہے کہ راضی با رضا ہو جاؤ
میں تو خود کو بھی مٹانے کے لیے راضی ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں کیا کہوں کریم سے بندے کو کیا ملا
سب کچھ ملا جو ایک شہِ دو سراﷺ ملا
روزِ حساب عیب معاصی کا پردہ پوش
ہم عاصیوں کو دامنِ آلِ عبا ملا
نکلی لحد میں دولتِ دیدارِ مصطفیٰﷺ
ہم خاک میں ملے تو درِ مدعا ملا
شیشہ صفت تھے آپ اور شیشہ صفت تھے ہم
بکھرے ہوئے سے آپ ہیں بکھرے ہوئے سے ہم
اس نے تھما دی ہاتھ میں اک بانسری ہمیں
پتھر اٹھا کے ہاتھ میں دینے لگے تھے ہم
موجود ہے تِری طرح وہ پاس بھی نہیں
کیسے کہیں یہ بات اب پاگل ہوا سے ہم
سخت وحشت زدہ صحرا میں ہوا میرے بعد
نام یوں "قیس" کا "مجنوں" کو ملا میرے بعد
پڑ گئے حلق میں صحرائے جنوں کے کانٹے
کہ میسّر نہیں ایک آبلہ پا میرے بعد
چاک اس غم سے گریبانِ کفن ہے کہ نہیں
پیرہن غم سے نہ ہو ان کی قبا میرے بعد
جب ساتھ میں چلنا ہی نہیں ایک قدم اور
پھر سب کو بتا دیجیے تم اور ہو ہم اور
ڈرتے نہیں طوفانوں سے سیلابوں سے ہم لوگ
جس درجہ ستم ہو گا یہ اٹھے گا قلم اور
آسانی سے دیتے نہیں ہم سب کو دعائیں
ظالم سے کہو؛ کرتا رہے ہم پہ ستم اور
قاتل سے بھی منصف نے رہ و رسم بڑھا لی
اب عدل ہے بکواس تو انصاف ہے گالی
اِس دور نے لفظوں کے بدل ڈالے معانی
نیکی ہے تجارت تو شرافت ہے دلالی
جسموں سے اتر جاتی ہیں دفتر کی تکانیں
میزوں پہ سرِ شام ہنسے چائے کی پیالی
بندگی کرنے کے آداب الگ ہوتے ہیں
عشق کے منبر و محراب الگ ہوتے ہیں
دل کا آزار کبھی جان نہیں لے سکتا
جان سے جانے کے اسباب الگ ہوتے ہیں
عشق اندیشۂ عبرت سے نکلتا ہی نہیں
دل الگ ہوتا ہے، اعصاب الگ ہوتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بھیڑ پروانوں کی ہے گنبدِ خضریٰ کے قریب
کھِنچ کے بیمار چلے آئے مسیحا کے قریب
ہر کِرن ریش منوّر کی تجلّٰی افروز
لَنْ تَرَانِیْ کا ہے ہالہ رُخِ زیبا کے قریب
ہر نشانِ قدمِ ناز ہے معراج بکف
اوجِ سدرہ سے بُلند عرشِ معلّٰی کے قریب
ضبط ساکت جھیل کا اب توڑ دے ایسے کہ بس
خامشی بھی چیخ اٹھے اور پھر بولے کہ بس
بعد میں آرام سے پھر وقت نے یکجا کِیا
ہم تِری آغوش میں آئے تو یوں بکھرے کہ بس
طاق پر ہم نے اٹھا کر رکھ دیا امید کو
تیس پر دس اور دن پوچھو نہ کیا گزرے کہ بس
جب کبھی ترکِ غمِ دل کا سوال آتا ہے
ریت پر نام تھا میرا بھی خیال آتا ہے
موجِ طوفان اٹھی بہہ چلے خوابوں کے صدف
پھر برستے ہوئے بادل پہ زوال آتا ہے
اب مِرے خواب کے ہمراہ وہی یادیں ہیں
جن کو معلوم نہ تھا شیشے میں بال آتا ہے
فرعون کی انگشت پر تقدیرِ امم ہے
ہاتھوں میں ابوجہل کے قرطاس و قلم ہے
شداد کے قدموں میں گلستانِ اِرم ہے
سُقراط کی تقدیر میں پیمانۂ سَم ہے
آتا نہیں ہر بار ابابیل کا لشکر
اب دستِ گنہگار میں ناموسِ حرم ہے
زلف و رسن کا اب بھی ہے اُلجھاؤ دُور تک
سر کو ہتھیلیوں لیے آؤ، دور تک
دشتِ وفا میں گُونجتی پھرتی ہے اک صدا
خوں میں نہاؤ، اور چلے جاؤ دور تک
ہم بھی بڑھا رہے ہیں شبِ غم کی عمر کو
تم بھی سیاہ زُلفوں کو سُلجھاؤ دور تک
کچھ لوگ تِرے شہر کو اب چھوڑ چلے ہیں
یہ بامِ فلک، ماہِ عرب چھوڑ چلے ہیں
اب زیست میں شاید کہ سِناں کا ہی سفر ہے
جینے کا یہاں اور ہی ڈھب چھوڑ چلے ہیں
اک دشت سنائے گا کہانی یہ ہماری
ہم ریت پہ سب نام و نسب چھوڑ چلے ہیں
الفت میں کیا بشر سے بشر بولتے نہیں
کیوں عاشقوں سے رشکِ قمر بولتے نہیں
شیریں لبوں کی یاد میں لب ان کے بند ہیں
شاخوں پہ اس لیے یہ ثمر بولتے نہیں
وصلت کی شب کو حلق پہ ہیں پھیرتے چھری
پھیرو چھری پہ مرغِ سحر بولتے نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رنگ اپنی محبت کا جس پر وہ چڑھاتے ہیں
اس کو وہ جہاں بھر میں انمول بناتے ہیں
انوار برستے ہیں چہروں سے انہی کے بس
جو عشق شہ دیںؐ سے سینے کو سجاتے ہیں
یہ ان کی غلامی میں اعزاز ملا ہم کو
جو لوگ ہمیں اپنی پلکوں پہ بٹھاتے ہیں
نہ کی جفاؤں میں اس نے کوئی کسر پھر بھی
لگے ہوئے تھے امیدوں کو میری پر پھر بھی
تمہاری یاد سے وابستہ ہے حیات مِری
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
تم اپنے گرد فصیلیں بنا کے بیٹھے ہو
ہوا تو ہو گا مِری یاد کا گزر پھر بھی
زعفرانی کلام
ماہ پارے دیکھتا رہتا ہوں میں
کیا نظارے دیکھتا رہتا ہوں میں
خانہ بربادی پہ اخراجات کے
گوشوارے دیکھتا رہتا ہوں میں
موند لیتی ہے وہ آنکھیں رات کو
دِن میں تارے دیکھتا رہتا ہوں میں
زعفرانی کلام
آٹھواں شوہر
کنوارے بوڑھے نے شادی کی ایسی عورت سے
کسی طرح بھی جو کچھ کم نہ تھی قیامت سے
نصیب والی تھی چھ شادی کر چکی تھی وہ
اب اپنے ساتویں شوہر کی زندگی تھی وہ
کچھ ایسا ساتواں شوہر بھی ہو گیا بیمار
یقیں تھا سب کو کہ یہ بھی اجل کا ہو گا شکار
زعفرانی کلام
آج رہنے دو اشنان، بہت سردی ہے
اور گیزر بھی نہیں آن، بہت سردی ہے
اب یہی عزم ہے، چاہے تو قیامت گزرے
ہم نہ بدلیں گے یہ بنیان، بہت سردی ہے
چاند پر جھک کے کسی ابر نے سرگوشی کی
گھر میں رہتے ہیں میری مان، بہت سردی ہے
طنزیہ و مزاحیہ کلام
ناکام عاشق کی بددُعا
عاشق کی دعائیں لیتی جا
جا تجھ کو پتی کنگال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا
جا تجھ کو پتی کنگال ملے
کھچڑی کی کبھی نہ یاد آئے
جا تجھ کو چنے کی دال ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مصطفیٰؐ کے دیوانے کب کسی سے ڈرتے ہیں
ذکر کملیﷺ والے کا کرنے والے کرتے ہیں
عقل کے جو بندے ہیں خود ہی ڈوب جاتے ہیں
عشق والے طوفاں میں ڈوب کر ابھرتے ہیں
آپؐ کے پیسنے سے جن گُلوں کو نسبت ہے
موسم خزاں میں وہ اور بھی نکھرتے ہیں
دل غم کا طلبگار ہے معلوم نہیں کیوں
راحت سے یہ بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
حق یہ ہے کہ ہم دونوں محبت میں بندھے ہیں
لیکن اسے انکار ہے معلوم نہیں کیوں
جو معتبر تھا اہل زمانہ کی نظر میں
رسوا سر بازار ہے معلوم نہیں کیوں
ضبط آہ و فغاں
کوشش رائیگاں
وجہ تسکین جاں
جلوۂ مہ وشاں
اک نظر کا زیاں
بن گئی داستاں
بھڑکی ہوئی ہے شمع شبستان زندگی
شعلہ نہ چوم لے کہیں دامان زندگی
مرنے کے بعد پھولوں سے تربت نواز دی
ہوتا ہے کون زیست میں پرسان زندگی
عیش و خوشی نشاط و طرب راحت و سکوں
ہیں ان سے بڑھ کے کون حریفان زندگی
وه جتا کے عشق مکر گیا میں تو مر گیا
یہ جو سانحہ سا گزر گیا میں تو مر گیا
ترا ہاتھ تھا کسی اور شخص کے ہاتھ میں
میں یہ خواب دیکھ کے ڈر گیا میں تو مر گیا
وه ادھر رہا تو حیات میری حیات تھی
وه ادھر سے جسے ادھر گیا میں تو مر گیا
ہم ٹھہر پائے نہ کعبے میں نہ بتخانے میں
عمر گزری دل شوریدہ کے بہلانے میں
آج تک ہو نہ سکے محرم اسرار جنوں
برسیں گزریں ہمیں رہتے ہوئے ویرانے میں
اپنے تو اپنے رہے غیر بھی رو دیتے ہیں
ایسی کیا بات ہے ہمدم مرے افسانے میں