رُسوائی کے خیال سے ڈر تو نہیں گئے
وہ راستہ بدل کے گُزر تو نہیں گئے
ترکِ تعلقات سے تم کو بھی کیا مِلا
ہم بھی غمِ فراق سے مر تو نہیں گئے
ہم پہ ترس نہ کھا ہمیں لاچار دیکھ کر
ہم ٹُوٹ بھر گئے ہیں بکھر تو نہیں گئے
دریا کے پار اُتر کے جلائی ہیں کشتیاں
ناکام لوٹ کے کبھی گھر تو نہیں گئے
دورِ خزاں میں سبزہ و شبنم کہاں ظفر
پلکوں پہ آ کے اشک ٹھہر تو نہیں گئے
ظفر نسیمی
No comments:
Post a Comment