فصیل ذات میں در تو تِری عنایت ہے
پر اس میں آمد وحشت مِری اضافت ہے
جب آئینے در و دیوار پر نکل آئیں
تو شہر ذات میں رہنا بھی اک قیامت ہے
ذرا سی دیر تو موسم یہ آرزو کا رہے
ابھی بھی قلب و جگر میں ذرا حرارت ہے
میں اپنی ذات سے باہر نکل تو آیا ہوں
اب اپنے آپ سے ملنے میں کیا قباحت ہے
یہ سر زمیں تو دریاؤں سے بنی ہے سعید
یہ اور بات کہ پل سے تمہیں عداوت ہے
سعید نقوی
No comments:
Post a Comment