Monday, 23 November 2020

خیال اسی کی طرف بار بار جاتا ہے

 خیال اسی کی طرف بار بار جاتا ہے

مرے سفر کی تھکن کون اتار جاتا ہے

یہ اس کا اپنا طریقہ ہے دان کرنے کا

وہ جس سے شرط لگاتا ہے ہار جاتا ہے

یہ کھیل میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا

میں جیت جاتا ہوں بازی وہ مار جاتا ہے

میں اپنی نیند دواؤں سے قرض لیتا ہوں

یہ قرض خواب میں کوئی اتار جاتا ہے

نشہ بھی ہوتا ہے ہلکا سا زہر میں شامل

وہ جب بھی ملتا ہے اک ڈنک مار جاتا ہے

میں سب کے واسطے کرتا ہوں کچھ نہ کچھ نظمی

جہاں جہاں بھی مرا اختیار جاتا ہے


اختر نظمی

No comments:

Post a Comment