Monday 19 August 2024

بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیار دو عالم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم

اِس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دو عالم

جس پر ترے پیغام کی گرہیں نہیں کُھلتیں

اُس پر کہاں کُھل پاتے ہیں اسرارِ دو عالم

آ کر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ

لگتا ہے اِسی غار میں دربارِ دو عالم

توقیر بڑھائی گئی افلاک و زمیں کی

پہنائی گئی آپ کو دستارِ دو عالم

وہ آنکھ بنی زاویۂ محورِ تخلیق

وہ زُلف ہوئی حلقۂ پرکارِ دو عالم

سرکار کی آمد پہ کُھلا منظرِ ہستی

آئینہ ہوئے یوں در و دیوارِ دو عالم

آہستہ روی پر تِری قربان سبک پا

اے راہبرِ گردشِ سیّارِ دو عالم

ہر نقش ہے اِس پیکرِ ذی شاں کا مکمل

آزر یہی شہکار ہے شہکارِ دو عالم


دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment