زعفرانی کلام
روح واعظ کے پھڑکنے کا مقام آتا ہے
دست ساقی سے مِرے ہاتھ میں جام آتا ہے
میں ہی کیا فالتو دُنیا میں ہوں اللہ مِرے
جو بھی غم چلتا ہے سیدھا مِِرے نام آتا ہے
اونٹ کی طرح ہیں یہ شیخ و برہمن بدنام
ان ہی بے چاروں کا ہر بات میں نام آتا ہے
دونوں ہی ایک ہیں لاحول ہو یا لفظ شراب
ایک شیطان کے، اک شیخ کے کام آتا ہے
سنتے ہیں جتنی حسینوں سے سوا ہوں باتیں
اتنا ہی حُسنِ بیاں، حُسنِ کلام آتا ہے
نار و جنت کی سُناتا ہے خبر یوں واعظ
جیسے اخبار وہاں سے تِرے نام آتا ہے
عشق کی راہ میں کچھ اور مقامات کے ساتھ
اک کچہری کے کٹہرے کا مقام آتا ہے
حاسد اس واسطے جلتے ہیں زیادہ ماچس
ہر جگہ اہلِ ادب میں تِرا نام آتا ہے
ماچس لکھنوی
No comments:
Post a Comment