Tuesday, 10 December 2024

عالموں کو بن باس دینے والے

 عالموں کو بن باس دینے والے


سورج سے سائے کی توقع بادل سے سنہری دھوپ کی

کانٹوں سے مہکتے پھول کی خوشبو صحرا سے ہریالی کی

کیسے بھولے آپ ہیں صاحب کیسی توقع رکھتے ہیں

کیچڑ میں جب آپ چلیں گے پاؤں تو گندے ہوں گے ہی

جھوٹوں کی صحبت میں رہ کر سچ کیسے کہہ پائیں گے

مرے ہوئے انساں کے لحم سے کیوں رغبت رکھتے ہیں آپ

اب بھی تھوڑا وقت بہت ہے قلب ماہیت کر لیں

اہل ہوس کے سامنے جھک کے

بونوں کی ثنا میں بے خود ہیں

اپنے جی کا سودا کر کے لوگوں کی ملامت سہتے ہیں

 بہت ہوا بس بند کریں اب اپنی ضمیر فروشی کو

دنیا والے سوچتے ہوں گے عالم کیوں ایسے ہیں اب

لیکن ان کو کون بتائے

آپ نے زر اور جسم کی خاطر

جاہل کو توقیر ہے بخشی، عالم کو بن باس دیا ہے

اور عالم تجھ کذب صفت کو محوِ حیرت تاک رہا ہے

علم جو شہر علم کے باہر اب بھی گریہ کرتا ہے

اپنی اور تیری حالت پر غم کے آنسو روتا ہے

کاش کہ ہو توفیق ذرا سی

تھوڑا پشیماں ہو لیں آپ

توبہ کی منزل سے پہلے

اپنی صورت دیکھ لیں آپ


ابوبکر عباد

No comments:

Post a Comment