ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں
لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں
ہم اپنا نام لے کے خود اپنے ہی شہر میں
گھر گھر پکار آئے کھلا کوئی در کہاں
جیسے ہر ایک در پہ خموشی کا قفل ہو
اب گونجتی ہے شہر میں زنجیر در کہاں
ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں
لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں
ہم اپنا نام لے کے خود اپنے ہی شہر میں
گھر گھر پکار آئے کھلا کوئی در کہاں
جیسے ہر ایک در پہ خموشی کا قفل ہو
اب گونجتی ہے شہر میں زنجیر در کہاں
دار پہ چڑھ کے جو تجدیدِ وفا ہوتی ہے
اس شہادت پہ تو سو جان فدا ہوتی ہے
جن کو دعوائے خِرد ہو ذرا آ کر دیکھیں
عشق کی راہ بہت ہوشربا ہوتی ہے
درد میں دوبی نگاہوں کی زباں ہے گویا
اور باتوں سے گو یہ بات جدا ہوتی ہے
نعم البدل نہیں تِرا اے یار کوئی اور
دنیا میں تجھ سا ہے کہاں دلدار کوئی اور
سانسوں کو ہے فقط تِری خوشبو کی لت لگی
بھائے گی کس طرح مجھے مہکار کوئی اور
شاید اسی کو کہتے ہیں یکجان دو بدن
بیمار کوئی اور اشکبار کوئی اور
یوں مجھے چھوڑ کے بیتاب کہاں جاتے ہیں
سوچتا ہوں مِرے احباب کہاں جاتے ہیں
چاند جیسے ہی اُترتا ہے مِرے کمرے میں
نیند جاتی ہے کہاں، خواب کہاں جاتے ہیں
ایک منظر میں انہیں دُور سے جاتے دیکھا
میں یہیں ہوں، مِرے اعصاب کہاں جاتے ہیں
فلمی گیت
تیری شادی پہ دوں تجھ کو تحفہ میں کیا
پیش کرتا ہوں دل ایک ٹُوٹا ہوا
خُوش رہے تُو صدا یہ دُعا ہے میری
بے وفا ہی سہی، دلرُبا ہے میری
خُوش رہے تُو صدا یہ دُعا ہے میری
محبت یاس سب کچھ ہے عداوت کچھ نہیں ہوتی
دل کج فہم کہتا ہے، رقابت کچھ نہیں ہوتی
نمازیں لاکھ پڑھ لو تم، وظیفے بھی کئی رٹ لو
سرور عشق ہوتا ہے، عبادت کچھ نہیں ہوتی
خودی کا راز جانو گے، تو یہ بھی جان لو گے تم
عمل ہی اصل دولت ہے، حکایت کچھ نہیں ہوتی
آتے ہیں جِن کے در سے پیمبر صبا کے دیکھ
کِھلتے ہیں شاخ شاخ پہ چہرے خدا کے دیکھ
اے آفتاب! جلوۂ یزداں کا احترام
چہرہ مِری زمین کا کرنیں جھکا کے دیکھ
میں منزِلِ ثبات کو ٹھکرا کے آ گیا
بِچھتے ہیں میرے پاؤں میں رستے فنا کے دیکھ
کسی کے شوخ بدن کی سرائے چاہتی ہے
یہ پارسائی بھی اب ہائے ہائے چاہتی ہے
کنیزِ خاص ہے وہ شاہزادی سے بڑھ کر
کہ شاہزادہ ہی آ کر منائے، چاہتی ہے
میں بھاگ بھاگ کے دنیا میں انتظام کروں
کہاں پہ دھوپ کہاں پر وہ سائے چاہتی ہے
پیار کا اک پل سکونِ زندگی دے جائے گا
ختم جو ہونے نہ پائے وہ خوشی دے جائے گا
وہ خلوص و مہر کا پیکر بنامِ دوستاں
دشمنوں کو بھی شعور دوستی دے جائے گا
حسنِ فطرت جلوہ گر ہو کر یقیناً اک دن
رنگ کلیوں کو گلوں کو دلکشی دے جائے گا
شرط
ہمارے گھر سے کچھ ہی دور قلعے کی پہاڑی ہے
جسے پریوں کا مسکن لوگ کہتے ہیں
اور اس قلعے کے رستے آستانہ ہے
کوئی سید ہے جس کی قید میں اک خوبصورت سی پری ہے
لگا رہتا ہے تانتا اس کے گھر
رنجیدہ ماؤں مسترد شد بیویوں، بدخواہ پھپھیوں کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے جن سے قائم، یہ نظمِ عالم، درود اُن پر، سلام اُن پر
جو دین کا اک، ستُونِ محکم، درود اُن پر، سلام اُن پر
نصیب دیدار آپ کا ہو، ہو خواب میں بھی، ہو حشر میں بھی
حیات میں سب سے جو مقدّم، درود اُن پر، سلام اُن پر
نہیں کوئی شک، کہ ان کی خاطر، ہوئی ہے تخلیق دو جہاں کی
اُنہی کی خاطر بنے ہیں عالم، درود اُن پر، سلام اُن پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تُوؐ نے ہر شخص کی تقدیر میں عزت لکھی
آخری خطبے کی صورت میں وصیت لکھی
تُوؐ نے ہر ذرے کو سورج سے ہم آہنگ کیا
تُوؐ نے ہر قطرے میں اک بحر کی وسعت لکھی
حُسنِ آخر نے کیا حُسن کو آخر تجھ پر
آخری رُوپ دیا، آخری سُورت لکھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلدار بڑے آئے محبوب بڑے دیکھے
جو دیکھے سبھی ان کے قدموں میں پڑے دیکھے
سردار دو عالمﷺ کی تعظیم کے کیا کہنے
مُرسل بھی سبھی جن کی راہوں میں کھڑے دیکھے
یاد ان کے مدینے کی جب دل میں اتر آئی
پلکوں کے کناروں پہ موتی سے جڑے دیکھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
"زہے نصیب، میں سرکارؑ کے دیار میں ہوں"
خوشا کہ گنبدِ خضرا ہی کے جوار میں ہوں
خدا کا شکر ہے، میں ان دنوں کہاں آیا
کبھی قُبا میں، کبھی اُن کی رہگزار میں ہوں
بلایا مسجدِ آقاﷺ میں میرے خالق نے
نظر ہے روضے پہ میں صحنِ سایہ دار میں ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل میں ہے خیال رخ نیکُوئے محمدﷺ
اللہ کے گھر میں ہے بسی بُوئے محمدﷺ
کیا رنگ تصور ہے کہ ہر سانس سے مل کر
آتی ہے ہوائے چمن کُوئے محمدﷺ
لے جائے اجل جان کی پروا نہیں مجھ کو
ہے تار رگ جاں مجھے ہر سُوئے محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ جلوۂ حق سبحان اللہ، یہ نور ہدایت کیا کہنا
جبریلؑ بھی ہیں شیدا انؐ کے، یہ شان نبوتؐ کیا کہنا
وہ کفر کی ظلمت دور ہوئی اور محفل دیں پر نور ہوئی
یہ مہر ہدیٰ سبحان اللہ، یہ صبح سعادت کیا کہنا
جس دل میں ہو پر تو کرسی و عرش اس دل کی بلندی صلِ علیٰ
جس سینے میں قرآں اترا ہو، اس سینے کی عظمت کیا کہنا
کہاں گرفت میں اب ماہ و سال کے موسم
بکھرتے جاتے ہیں تیرے وصال کے موسم
تِرے جواب کے وقفے طویل کتنے ہیں
گزرتے جاتے ہیں میرے سوال کے موسم
ہر ایک پھول کلی کو بُلا رہا ہے قریب
چمن میں آئے ہیں اب کے کمال کے موسم
اک مندر میں
اس کی وفا کے مندر کے
بڑے بڑے دالانوں میں
میں پھرتا رہتا ہوں
لمبی لمبی راہداریوں کے
اونچے، ٹھنڈے ستونوں کی
بے وفا تجھ کو کچھ خبر نہ ہوئی
عرض شرمندۂ اثر نہ ہوئی
جو دوا تُو نے دی تھی زخموں کی
چارہ گر! وہ بھی پُر اثر نہ ہوئی
جانے کیسی بہار آئی ہے؟
شاخ کوئی بھی با ثمر نہ ہوئی
دیکھ سفاک مِرے حال پہ تنقید نہ کر
مت اڑا خاک، مِرے حال پہ تنقید نہ کر
کوئی منظر میں بنالوں گا انوکھا کل تک
چشمِ نمناک! مِرے حال پہ تنقید نہ کر
کُوزہ گر ہے تو کوئی اپنا کھلونا بھی بنا
چل اُٹھا خاک، مِرے حال پہ تنقید نہ کر
میرے اشکوں کی نمی بھی نہیں رہنے والی
سُوکھ ہی جائے گی یہ جھیل بھی بہنے والی
ہم میں اس ترکِ تعلق کا خطا وار تھا کون
چھوڑئیے اب یہ کہانی نہیں کہنے والی
دِل میں اک فقرہ اُتر جاتا ہے خنجر کی طرح
دوست! ہر بات تو ہوتی نہیں سہنے والی
چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی
پانی تمہیں ہرگز نہ صبا دے گا یہ پانی
اک روز ڈبو دے گا مِرے جسم کی کشتی
مجھ سے مجھے آزاد کرا دے گا یہ پانی
پہنچے گا سرابوں کا وہاں بھیس بدل کر
صحرا میں بھی ہر لمحہ صدا دے گا یہ پانی
آیتِ صبر پڑھی سینہ کشادہ کیا ہے
منزلِ عشق پہ رہنے کا اعادہ کیا ہے
جس کے وعدے پہ ہم اک عمر گزارے ہوئے تھے
پھر اسی وعدہ فراموش نے وعدہ کیا ہے
پہلے تو خود کو اندھیرے کی اذیت سے نکال
روشنی چُھونے کا گر تُو نے ارادہ کیا ہے
روز جینے روز مرنے سے اندازہ لگا مجھے
یہ عشق کسی بد دعا کا خمیازہ لگا مجھے
تیری کوئی یاد دبے پاؤں اندر آئی ہے
ہلکا سا کھلا ہوا دل کا دروازہ لگا مجھے
اتنی مانوسیت کا احساس ہوا یہاں آ کر
صحرا اپنا بکھرا ہوا شیرازہ لگا مجھے
نہ کربِ ہجر نہ کیفیتِ وِصال میں ہوں
مجھے نہ چھیڑئیے اب میں عجیب حال میں ہوں
تمام رنگ عبارت میں سوزِ جاں سے مِرے
میں حسنِ ذات ہوں اور منزلِ جمال میں ہوں
مِرا وجود ضرورت ہے ہر زمانے کی
میں روشنی کی طرح ذہنِ ماہ و سال میں ہوں
ترے خلوص کا سورج جو ڈوب جائے گا
اندھیری رات کا جنگل مجھے ڈرائے گا
میں ایک پیار کا جذبہ ہوں، مر نہیں سکتا
وہ لا شعور میں کتنا مجھے دبائے گا
ہے پُر فریب طبیعت مِرے خیالوں کی
دماغ دائروں میں دائرے بنائے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
لا ریب کہ الله تعالیٰ تُو نے
بندے کو بڑے عیش سے پالا تُو نے
لغزش ہوئی جب بھی تو سنبھالا تُو نے
میرا ہر اک ارمان نکالا تُو نے
امروہے کے پھر جلوے کیے ہیں میں نے
اک پھیرے کے دو عشرے کیے ہیں میں نے
مرثیۂ کشمیر
ہر مشکل حل ہو جائے
وادی مِری پہ خدا
بُرا وقت کبھی نہ آئے
ہر سرحد ڈھے جائے
اب نہ ہو جنگ خدا
بندوق پہ زنگ آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
صبح پیکار
ہر وقت غازیوں کے تصور میں تھی یہ بات
برحق ہے کہہ گئے ہیں جو مولائے کائناتؐ
احسان و در گزر بھی ہے ایمان کی زکات
بچوں پہ عورتوں پہ اٹھائے نہ کوئی ہات
قیدی ہوں کہ مریض ہماری اماں میں ہیں
گل ہوں کہ خار، فن کدۂ باغباں میں ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
التجا بحضور شاہِ دو عالمؐ
تلاطم خیز ہے طوفانِ غم، کشمیر میں شاہاؐ
نزول صد بلا ہے دم بدم کشمیر میں شاہاؐ
نکالا گھر سے کشمیری مسلمانوں کو اور ان پر
کیا ہے دشمنِ دِیں نے ستم کشمیر میں شاہاؐ
مسلمانوں کے خوں سے سرخ ہے رنگِ شفق اس کا
زمیں خونِ شہیداں سے ہے نم کشمیر میں شاہاؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہزارہا سلام غازیو
پیامِ سید البشرؐ کے دہر میں امین ہو
وقار قوم، ناز ملک، افتخار دین ہو
ابوعبیدہؓ، خالدؓ و عمرؓ کے جانشین ہو
علم بدست، حق پرست، نیک نام غازیو
تمہارے عزم پر ہزار ہا سلام غازیو
خدائے ذوالجلال کا کرم تمہارے ساتھ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
نبی الملاحمؐ
نعتِ رسولؐ کا یہ طریقہ عجب نہیں
سمجھیں عوام داخلِ حدّ ادب نہیں
لیکن یہ طرز خاص مِرا بے سبب نہیں
شیوہ سپاہیوں کا نوائے طرب نہیں
رائج ہزار ڈھنگ ہوں ذکرِ حبیبؐ کے
شاہیں سے مانگیے نہ چلن عندلیب کے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام التماس
ہم گنہ گار شیدائیوں کی طرف اک نظر سرورِ دو جہاںؐ دیکھیے
آفتیں دیکھیے، مشکلیں دیکھیے، ابتلا دیکھیے، امتحاں دیکھیے
پھول روندے ہوئے، غنچے مسلے ہوئے، شاخیں ٹوٹی ہوئیں، پتّے بکھرے ہوئے
تھی دعا آپﷺ کی جس کی بادِ صبا، آج اپنا وہی گلستاں دیکھیے
کیسے دوزخ کی لو آج چلنے لگی، سوئے کشمیر جنت فشاں دیکھیے
دیووں بھوتوں کے قبضے میں ہے آج کل حسن فطرت کا باغ جناں دیکھیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تیری ہی تجلی سے ہیں روشن مہ و خورشید
خالق بھی تُو ہی ہے تُو ہی رب ہے تُو ہی معبود
تیرے ہی کرم سے ہیں رواں قافلے ہر سُو
رہبر نہ بنے تُو تو ہر اک راہ ہے مسدود
تُو چاہے تو ہر بحر کو پایاب بنا دے
تُو نوحؑ کا حافظ ہے، براہیمؑ کا معبود
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکارؐ ہیں ایسا نہیں کوئی
تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی
یہ شان لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی
اے ظرف نظر دیکھ مگر دیکھ ادب سے
سرکارؐ کا جلوہ ہے تماشہ نہیں کوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسے مقامِ رسولِ خداﷺ نہیں معلوم
اسے خود اپنی حقیقت ذرا نہیں معلوم
درِ حبیبؐ پہ کیا کچھ ہوا، نہیں معلوم
اثر کا علم ہے، لیکن دعا نہیں معلوم
بجُز مدینہ کہیں کا پتہ نہیں معلوم
نبیؐ کے بعد کوئی دوسرا نہیں معلوم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
درِ نبیؐ پہ مقدر جگائے جاتے ہیں
جو کام بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں
نبیؐ کے در پہ کبھی مانگنا نہیں پڑتا
یہاں تو جام نظر سے پلائے جاتے ہیں
نگاہِ ساقئ کوثر کا یہ کرشمہ ہے
کہ مست کرنے سے پہلے اٹھائے جاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرا دل اور میری جان مدینے والے
تجھ پہ سو جان سے قربان مدینے والے
بھر دے بھر دے مِرے داتا مِری جھولی بھر دے
اب نہ رکھ بے سر و سامان مدینے والے
کل کے مطلوب کا محبوب ہے معشوق ہے تو
اللہ، اللہ، تِری شان مدینے والے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آنکھوں کا تارا نامِ محمدﷺ
دل کا اجالا نامِ محمدﷺ
اللہ اکبر رب العلا نے
ہر شے پہ لکھا نامِ محمدﷺ
ہیں یوں تو کثرت سے نام لیکن
سب سے ہے پیارا نامِ محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
پیمبروں کے صحیفوں میں نور تجھؐ سے ہے
فلک پہ چاند ستاروں میں نور تجھ سے ہے
تیریﷺ حدیث خدا کی کتاب کی تفسیر
نماز اور اذانوں میں نور تجھ سے ہے
چمن چمن میں بھی، موجِ صبا میں بھی اے دل
افق، حسین نظاروں میں نور تجھ سے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت کہنے کا سلیقہ تو عطا کر ایسا
خوشبوئیں رقص کریں ہو بھی گلِ تر ایسا
ہو چمک ایسی کہ چمکیں یہ زمیں اور فلک
نعت گوئی میں ہو لہجہ مِرا اختر ایسا
آپ کیسے ہیں سمجھ لوں تو میں کیسا ہو جاؤں
سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں اکثر ایسا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبی کے غلاموں میں نام آئے گا
اگر جذبِ دل ہے تو کام آئے گا
میری مغفرت کا پیام آئے گا
جو صبح نہ آیا تو شام آئے گا
جبیں داغِ سجدہ سجائے رکھے
لحد کے اندھیرے میں کام آئے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفٰیﷺ جانے
مقام مصطفٰیﷺ کیا ہے، محمدﷺ کا خدا جانے
صدا کرنا مِرے بس میں تھا میں نے تو صدا کر دی
وہ کیا دیں گے، میں کیا لوں گا، سخی جانے گدا جانے
مریض مصطفیٰﷺ ہوں میں طبیبو! چھیڑو نہ مجھ کو
مدینے مجھ کو پہنچا دو تو پھر دارالشفا جانے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہاں بھی ہو، وہیں سے دو صدا، سرکارؐ سُنتے ہیں
سرِ آئینہ سُنتے ہیں، پسِ دیوار سُنتے ہیں
مِرا ہر سانس اُن کی آہٹوں کے ساتھ چلتا ہے
مِرے دل کے دھڑکنے کی بھی وہ رفتار سُنتے ہیں
کھڑے رہتے ہیں اہلِ تخت بھی دہلیز پر اُن کی
فقیروں کی صدائیں بھی شہِ ابرارﷺ سُنتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
بختِ خوابیدہ جگانا ہے تو پھر نعتیں کہو
گھر مدینے کو بنانا ہے تو پھر نعتیں کہو
اک وسیلہ حشر کے دن ساتھ ہونا چاہیے
اپنے بگڑی کو بنانا ہے تو پھر نعتیں کہو
نعت کہنا اور پڑھنا سنتِ اسلاف ہے
اپنے شجرے کو سجانا ہے تو نعتیں کہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
احسان مانتی ہے یہ دنیا حسینؑ کا
ممنون آج بھی ہے زمانہ حسینؑ کا
یہ کربلا سے پوچھیے کیسے ادا یوا
دیکھا ہے جس نے آخری سجدہ حسینؑ کا
کس طرح راہِ حق میں بھرا گھر لُٹا دیا
کیوں آسمان حوصلہ دیکھا حسینؑ کا؟
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہر دور میں کربلا رہی ہے لوگو
اک غیب سے آواز چلی آتی ہے
یہ تو ہے ولی ابنِ ولی کی آواز
یعنی حسینؑ ابنِ علیؑ کی آواز
رخ سے پردے اٹھا رہی ہے لوگو
تم کو سب کچھ سنا رہی ہے لوگو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
اے بدخشانِ نبیؐ کے لعلِ احمر السّلام
اے گلستانِ علیؑ کے لالۂ تر السلام
ایک ساعت ہی میں اُمت پِھر گئی نانا کی سب
کیا قیامت لائی تیرے سر کے اوپر السلام
بُوند بھر پانی نہ دریا پر تجھے پینے دیا
اے تمنائے دلِ ساقئ کوثر السلام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہاں اے حسینِؑ تشنہ و رنجُور، السّلام
اے مہمانِ عرصۂ بے نُور، السّلام
اے شمعِ حلقۂ شبِ عاشُور، السّلام
اے سینۂ حیات کے ناسُور، السّلام
اے ساحلِ فُرات کے پیاسے تِرے نثار
اے آخری نبیؐ کے نواسے تِرے نثار
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
صفحۂ زیست پہ تحریرِ شہادت چمكی
اک نئے رنگ سے انسان كی عظمت چمكی
كس نے خُوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا
نوکِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی
ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی
شكر ہے حضرت شبیرؑ كی جرأت چمكی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جب رن میں ہُوا خاتمۂ لشکرِ شبیرؑ
اور اکبرؑ و عباسؑ رہے یا شہِؑ دلگیر
اس وقت علمدارؑ نے کی جنگ میں تدبیر
ہاتھ اس کا لگا پھرنے سُوئے قبضۂ شمشیر
حسرت سے نظر کرتے تھے جنگاہ کی جانب
اُلفت سے کبھی دیکھتے تھے شاہؑ کی جانب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
مصداق حرفِ آیۂ تطہیر ہیں حسینؑ
مرآۃ لا الہ کی تنویر ہیں حسینؑ
آئینہ استعانت صبر و صلوٰۃ کا
آیات بینات کی تفسیر ہیں حسینؑ
مظہر ہیں سر آیۂ ذبحِ عظیم کا
اک لازوال خواب کی تعبیر ہیں حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وہ سوچتے تھے آج جو ہوتے یہاں رسولؐ
کیا ان مطالبات کو کر لیتے وہ قبول؟
واقف ہے خود یزید ہمارا ہے کیا اصول
پھر بحث اس نے چھیڑ دی ہے ہم سے کیا فضول
کیا واقعہ نہیں ہیں ٹھکانے اب اُس کے ہوش
سمجھا تھا اس نے ہم کو بھی شاید خدا فروش
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
رکوع، سجدہ قیام اور تشنہ کام حسینؑ
ہُوا، نہ ہو گا کسی سے یہ اہتمام حسینؑ
ملے ہیں خاک میں جو ظُلم کی علامت تھے
ہے زندہ آج بھی مظلومیت کا نام حسینؑ
لگا کے سینے سے حُر کو جو تُو نے بخشا تھا
عطا ہو ہم کو بھی ایسا ہی ایک جام حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
مصائب
پیش امیر شام شہیدوں کے سر جب آئے
ساتھ ان کے سر برہنہ نبیؐ زادیوں کو لائے
تحقیر کی،۔ مذاق کیا،۔ قہقہے لگائے
جتنے تھے طعن و طنز کے نشتر سبھی چلائے
کیا جوشِ انتقام قتیلانِ بدر کا تھا
پیشِ نظر یزید کے میدانِ بدر تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تمہیں خبر بھی ہے جو مرتبہ حسینؑ کا ہے
فُرات چھیننے والو! خدا حسینؑ کا ہے
کوئی سدا نہیں روتا بچھڑنے والوں کو
ثباتِ رسمِ عزا معجزہ حسینؑ کا ہے
ازل سے تا بہ ابد نُور کے نشاں دو ہیں
اک آفتاب ہے، اک نقشِ پا حسینؑ کا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کربل والوں کے دم سے ہے، ہم کو پیارا ماتم
اپنے دُکھوں میں اس جیون کا، بس ہے سہارا ماتم
جہاں پہ مشکیزے پر تِیر لگا تھا اک ظالم کا
کرتا ہو گا نہرِ فُرات کا، اب وہ کنارہ ماتم
جب تاریکی میں بی بی زینبؑ کے دُکھ کو سوچا
ان پلکوں پر چمک اُٹھا تھا، ایک ستارا ماتم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسینؑ
شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسینؑ
حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے
دنیا کی بے وفائی سے دلگیر ہے حسینؑ
یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار
اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
آغوشِ محمدؐ میں پلے زہراؑ کے دلبند
شبیرؑ ہیں شبّرؑ ہیں یہ حیدرؑ کے ہیں فرزند
کیا شانِ یصلّون ہے، کیسا ہے گھرانہ
مصروفِ سلامی ہوا از خود خداوند
دی جن کی عطاؤں نے غلاموں کو نیابت
دیکھے سرِ بازار وہ زنجیروں میں پابند
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جب کہ مارے گئے دریا کے کنارے عباسؑ
اب نہیں تشنگی کوثر کو سدھارے عباسؑ
شہؑ نے فرمایا کہ ہے ہے مِرے پیارے عباسؑ
اب نہ جینے کا مزہ غم میں تمہارے عباسؑ
سچ تو یہ ہے جو تمہیں ہاتھ سے کھویا میں نے
زندگانی کا مزہ ہاتھ سے کھویا میں نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دلوں میں درد سا اٹھا، لیا جو نامِ حسینؑ
مثالِ برق تڑپنے لگے غلامِ حسینؑ
لبِ فُرات جو پیاسے رہے امامِ حسینؑ
خدا نے بھر دیا آبِ بقاء سے جامِ حسینؑ
رضا و صبر میں ان کا جواب کیا ہو گا
کہ جب بھی تیر لگا، ہنس دئیے امامِ حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
نہر پر حضرتِ مسلمؑ کے خلف آتے ہیں
خُلد کے جانے کو مقتل کی طرف آتے ہیں
لعل ہونے کے لیۓ دُرِ نجف آتے ہیں
ڈُوبنے کو قمرِ بُرجِ شرف آتے ہیں
آگے آگے تو یتیموں کی قضا آتی ہے
پیچھے سر کھولے ہوئے خیرالنساؑء آتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سرِ حسینؑ سِناں پہ جِدھر سے گُزرا ہے
خدا کا نام اسی رہ گزر سے گزرا ہے
نبیؐ کے فرش سے عرشِ بریں کے پردے تک
علیؑ ہر اک مقامِ خبر سے گزرا ہے
نہیں ہے اب کوئی معراجِ مصطفیٰؐ میں گماں
بشر کا قافلہ شہرِ قمر سے گزرا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے
یہ خستگی تو اہلِ رضا کا لباس ہے
اے تشنگی یہ حُسنِ محبت کے رنگ ہیں
اے چشمِ نم، یہ قافلۂ اہلِ یاس ہے
یہ عشق ہے کہ وسعتِ آفاقِ کربلا
یہ عقل ہے کہ گوشۂ دشتِ قیاس ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے
مجرئی! وہ فردِ عصیاں دھو گئے
یاد آیا دامنِ مادر کا چین
پاؤں پھیلا کر لحد میں سو گئے
اشک کیا نکلیں کڑے احوال پر
سنتے سنتے قلب پتھر ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حسین تر پُھول چُن کر حق نے ایماں کی بہاروں سے
ملا دی شانِ بطحا جنتوں کے لالہ زاروں سے
ہے ممنونِ محمدﷺ مصطفیٰﷺ شانِ براہیمیؑ
وہ چاہیں تو شگفتہ پُھول پیدا ہوں شراروں سے
عرب کے کملی والے سے وہ دولت ہم نے پائی ہے
جو دولت مل نہیں سکتی جہاں کے تاجداروں سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
عشقِ نبیﷺ میں جب سے قمر مبتلا ہوا
حیرت سے پوچھتی ہے خِرد دل سے کیا ہوا
پروردگار شوق سے مُشکل کشا ہوا
دل کی زباں سے نامِ علیؑ جب ادا ہوا
آیا ہے رازِ کن فیکوں کُھل کے سامنے
جونہی درِ رسولِ خداﷺ مجھ پہ وا ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جو رحمتِ عالمﷺ کو نبوت نہیں ملتی
محشر میں کسی کو بھی شفاعت نہیں ملتی
اللہ کے محبوبﷺ سبب بن گئے، ورنہ
انسان کو معراج کی عظمت نہیں ملتی
دشمن کے ستانے پر بھی دیتے ہیں دعائیں
دنیا میں محمدﷺ سی شرافت نہیں ملتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہمسر جہاں میں کب ہے رسول کریمؐ کا
ثانی کبھی ملا نہیں دُرِ یتیم کا
وہ گُلشن وقار کہ جس کے درخت پر
ہے آشیانہ بلبلِ سدرہ مقیم کا
وہ شاہ عدل دوست کہ یہ بندوبست شرع
ہے اک نمونہ آپؐ کی رائے سلیم کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے شہنشاہِ مدینہ الصلوۃ والسلام
زینتِ وعرش مُعلّی الصلوۃ والسلام
ربِ ہب لی اُمّتی کہتے ہوئے پیدا ہوئے
حق نے فرمایا کہ بخشا الصلوۃ والسلام
دست بستہ سب فرشتے پڑھتے ہیں اُن پر درود
کیوں نہ ہو پھر ورد اپنا الصلوۃ والسلام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
اے صبا لے کو تو آ ان کے بدن کی خوشبو
میں بھی سونگھوں ذرا جنت کے چمن کی خوشبو
یوں تو قرآن ہے اللہ تعالیٰ کا کلام
اس سے آتی ہے کسی مُشکِ دہن کی خوشبو
جس پہ اک بار رکھا آقاﷺ نے دستِ شفقت
مرتے دم تک نہ گئی مُشکِ خُتن کی خوشبو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
گرچہ لکھی ہوئی تھی شہادت امامؑ کی
لیکن میرے حسینؑ نے حُجّت تمام کی
زینبؑ کی بے رِدائی نے سر میرا ڈھک دیا
آغازِ صبح نِو ہوئی وہ شام شام کی
اک خوابِ خاص چشمِ محمدؐ میں تھا چُھپا
تعبیر نُورِ عینِ محمدﷺ نے عام کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تم ہو معراجِ وفا، اے کشتگانِ کربلا
ورنہ، آساں تو نہیں تھا امتحانِ کربلا
ہر کہانی جس نے لکھی ہے ازل سے آج تک
وہ بھی رویا ہو گا سُن کر داستانِ کربلا
دودھ کی نہریں بھی قُرباں، حوضِ کوثر بھی نثار
اِک تمہاری پیاس پر، اے تشنگانِ کربلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تو سمجھتا ہے، حدیثِ ناتوانی ہے حسینؑ؟
عشق و عزم و استقامت کی نشانی ہے حسینؑ
مشرقِ صبر و رضا، کرنوں سے اس کی تابناک
صبح کا پرتو، شفق کی زرفشانی ہے حسینؑ
بوستانِ کُن فکاں اس کے لہو سے لالہ خیز
آشنائے رسم و راہِ باغبانی ہے حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جس وقت بہت پیاس سے گھبرائی سکینہؑ
دروازے پہ اک مشک اٹھا لائی سکینہؑ
عباسؑ نے پوچھا کہ کہاں آئ سکینہؑ
رو رو کے یہ کہنے لگی دکھ پائی سکینہؑ
صدقے گئی یا مشک میں پانی مجھے لا دو
یا اب لبِ دریا کی مجھے راہ بتا دو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کہتے تھے خود رسولؐ کہ بیٹھا ہوں قبلہ رُو
مجھ سا میرے حسینؑ کو پاؤ گے ہو بہو
عادات میں کہیں سے نہیں فرق مو بمو
دیکھو مِرے حسینؑ میں مِری ہر ایک خو
میں خود کو دیکھتا ہوں تو ہوں سر بسر حسینؑ
آئینہ درمیاں ہے اِدھر میں، اُدھر حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
لہو میں ڈُوبے ہوئے، خاک میں نہائے ہوئے
یہ کون لوگ ہیں دنیائے غم پہ چھائے ہوئے
گُزر گیا ہے کوئی دن دُعائے صبر کے ساتھ
گُزر گئی ہے کوئی شب دِیا بُجھائے ہوئے
ہمارا کیا کسی خُورشید سے ہو ربط کہ ہم
تیرے چراغ کی لو سے ہیں لو لگائے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حلقۂ کُفر سے یوں حُرِ دلاور نکلے
جس طرح آبِ رواں کاٹ کے پتھر نکلے
جن کے چہروں پہ بظاہر تھی شریعت کی نقاب
آستینوں میں چُھپائے ہوئے خنجر نکلے
آخری خطبۂ شبیرؑ سے رن کانپ اٹھا
لب کے الفاظ کہ شمشیر سے جوہر نکلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
یہ مانتا ہوں وہ کربلا کا شہیدِ اعظم خدا نہیں ہے
بقا خدا کے لیے ہے لیکن حسینؑ کو بھی فنا نہیں ہے
بھرے ہیں شیر خدا کے جذبے جری کے دل میں لہو کی صورت
وفائے عباسؑ اور کیا ہے? اگر علیؑ کی دعا نہیں ہے
کبھی ہٹی تھی جو سر سے چادر تو مہر نے منہ چھپا لیا تھا
فلک کی بھی ہے عجیب گردش کسی کے سر پر ردا نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وہ شخص تِرے در سے جسے پیار نہیں ہے
ہاں! اس سے بڑا کوئی گُنہ گار نہیں ہے
تُو میری طرف ہے تو مجھے غم نہیں اس کا
یہ دنیا اگر مِری طرف دار نہیں ہے
سیدھی چلی جاتی ہے حسینؑ آپ کے در تک
حق راہ میں سچ مچ کوئی دیوار نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کونین کا سردار حسینؑ ابنِ علیؑ ہے
سر چشمۂ انوارِ حسینؑ ابن علیؑ ہے
دانندہ اسرارِ حسینؑ ابن علیؑ ہے
اُمت کا سپردار حسینؑ ابن علیؑ ہے
مقدور کسے مدحِ امامِؑ دو سرا کا
حقا کہ وہ محبوبؑ ہے محبوبِؐ خدا کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام حسینی ماہیے
بہتا ہے فرات کہیں
پیاسے ہی مار دئیے
نہیں اس کی نجات کہیں
٭
پانی کی جھیلیں ہیں
قطرہ نہ ان کو ملا
اب لگتی سبیلیں ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جتنا حُسینؑ تیری ’نہیں‘ پر لکھا گیا
لکھنا جہاں تھا گویا وہیں پر لکھا گیا
نصرت کا باب تیری جبیں پر لکھا گیا
لوح و قلم پہ عرشِ بریں پر لکھا گیا
وہ فیصلہ جو پیاسی زمیں پر لکھا گیا
مشک و عَلَم پہ گھوڑے کی زیں پر لکھا گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
عاشور کی شب ہے تِری معراج کی رات
الٹے گئے عالم کے طبق آج کی رات
یکجا ہوئے قرآں کے ورق آج کی رات
سمجھا گیا مضمونِ ادق آج کی رات
تھے حفظ شہادت کے سبق آج کی رات
دی عالم بالا سے محمدﷺ نے ندا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
راوئ معتبر اس طرح سے کرتا ہے رقم
کربلا میں ہوئے وارد جو امامِ عالمؑ
چھ مہینے سے بھی عمر تھی اصغرؑ کی کم
گھر گیا نرغۂ روباہ میں وہ حق کا ضیغم
شبِ عاشور یہ حال اصغرؑ کم سن کا تھا
پیاسا آغوش میں مادر کی وہ دو دن کا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
شرف یہ کم تو نہیں حرفِ معتبر کے لیے
سِناں کی نوک ہو دستار میرے سر کے لیے
گواہی دے گا کہ میرا لہو سفید نہیں
علم سیاہ بنایا ہے اپنے گھر کے لیے
جو اپنے آپ کو کہتے ہیں عاشقانِ نبیؐ
تڑپنا دیکھیے اُن کا حصولِ زر کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ذکرِ حسینؑ بر سرؑ منبر ہے اور میں
کتنا بلند میرا مقدر ہے اور میں
در پیش شرح قول و پیمبرؐ ہے اور میں
اک علم و آگہی کا سمندر ہے اور میں
میں کچھ نہیں رسولؐ کے در کا غلام ہوں
کہنا ہے گھر کی بات کہ گھر کا غلام ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
زینبِؑ خستہ جگر کا منہ تھا اس کی یال پر
لیتی تھی کلثومؑ گھوڑے کی بلائیں سر بسر
کہتی تھی بانو رکابوں سے لگا کر چشمِ تر
میرا والی ہے کہاں اسوار تیرا ہے کدھر
بیچ میں گھوڑے کو لے کر ایک حشر کا عالم ہوا
بیبیوں میں پہلے حلقہ باندھ کر ماتم ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دریا نہ تھا عاشور کی شب کی ہے یہ بات
چہرے پہ زمیں کے اک آنسو تھا فرات
دریا میں پچھاڑیں کھا رہا تھا سیلاب
اور رہ رہ کے دہاڑیں مارتا تھا سب آب
ہاں ٹوٹ کے اور پھوٹ کے روتے تھے حباب
دامانِ خلا پر جو وہ ہر سو تھے نجوم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
مالک کی عیادت کا دلوں میں ہے وفور
اور شوق شہادت میں ہر اک ہے مسرور
خیموں میں ہے پھیلا ہوا ایمان کا نور
کرتی ہے جسے سلام برق سرِ طور
فوجیں گھنے جنگل میں ہوں جیسے کہ درخت
کرتے ہیں خنجروں پر صیقل بد بخت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
یہ نام حسینؑ بھی وحی ہے گویا
کندہ کیا خطاط ازل نے یہ نام
اہلِ نظر اس نام کو کرتے ہیں سلام
جس وقت محمدﷺ نے رکھا یہ نام
جبریلؑ نے آ کر تھا بتایا یہ نام
یہ نام حسینؑ بھی وحی ہے گویا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام حسینی ماہیے
کیکر پہ پھول ہوا
خون شہیدوں کا
عرشوں پہ قبول ہوا
٭
کسی ہاتھ کی ریکھا ہے
نانا نے خود آ کر
تیرا حال بھی دیکھا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جب بھی ہو جاتا ہے خالق کا کرم آپ سے آپ
منقبت ہوتی ہے مولا کی رقم آپ سے آپ
کیا کہیں تذکرہ کرب و بلا ہوتا ہے
کس لیے آنکھیں ہوتی ہیں مِری نم آپ سے آپ
نام حیدرؑ ہے مِرا جب کہا مولا نے میرے
لڑکھڑانے لگے مرحب کے قدم آپ سے آپ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دینِ اسلام کا کربل میں یہ رہبر تو نہیں
نازشِ دیں خدا دلبر حیدرؑ تو نہیں
احمدﷺ و حیدرؑ کرار کا دلبر تو نہیں
جو ہے سردار جناں یہ وہ گلِ تر تو نہیں
فوج باطل سے چلے آتے ہیں کچھ فوجی ادھر
دیکھئے شاہ کہیں حرؑ دلاور تو نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
غمِ شبیرؑ میں آنکھوں میں آنسو آئے جاتے ہیں
یہ وہ موتی ہیں خونِ دل سے جو چمکائے جاتے ہیں
خدا کے واسطے اے شہپر جبریلؑ! سایہ کر
علیؑ اصغر کے عارض دھوپ میں کمھلائے جاتے ہیں
امامت کے فریضہ کی بلندی کوئی کیا جانے
یہاں شاہوں کے تاج و تخت بھی ٹھکرائے جاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جب نکلا شیر خیمہ سے مشک و علم لیے
بچوں کی العطش کی صدائیں بہم لیے
جعفرؑ کا رعب شیر خداؑ کا حشم لیے
فتح و ظفر نے سر پہ جری کے قدم لیے
نظریں جمیں ترائی پہ، جس دم دلیر کی
لشکر میں غُل ہوا اب آمد ہے شیر کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ماں سجاتی ہے پسر مقتل میں جانے کے لیے
سوچتی ہے یہ گلا ہے تیر کھانے کے لیے؟
پہلے بالوں کو سنوارا، پھر اُتاری ہے نظر
آئے ہیں شبیرؑ اصغرؑ کو اُٹھانے کے لیے
بولی معصومہ مِرا اصغرؑ نہ مر جائے کہیں
کوئی لے جائے اِسے پانی پلانے کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حجاب دل میں نہیں چہرے پر نقاب نہیں
شعورِ عشقِ محمدﷺ تِرا جواب نہیں
میں پُر خطا ہوں گنہگار ہوں بہت، لیکن
مجھے یقین ہے مٹی مِری خراب نہیں
سخی تو اور بھی ہیں آپؐ کی حکومت میں
مگر حضورؐ کی بخشش کا بھی جواب نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گُلستاں اور بیاباں میں تُو ہی تُو ہے، تُو ہی تُو ہے
دلِ رنجور و شاداں میں تو ہی تو ہے، تو ہی تو ہے
کبھی اُلجھا دیا خود کو، کبھی سُلجھا دیا خود کو
کسی کی زُلفِ پیچاں میں تو ہی تو ہے، تو ہی تو ہے
کہیں ہے آنکھ عاشق کی، کہیں دیدارِ جاناں ہے
بہارِ حُسن تاباں میں تو ہی تو ہے، تو ہی تو ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر نظر کانپ اٹھے گی محشر کے دن خوف سے ہر کلیجہ دہل جائے گا
پر یہ ناز ان کے بندے کا دیکھیں گے سب تھام کر ان کا دامن مچل جائے گا
موج کترا کے ہم سے چلی جائے گی، رُخ مخالف ہوا کا بدل جائے گا
جب اشارہ کریں گے وہ نامِ خدا، اپنا بیڑا بھنور سے نکل جائے گا
یوں تو جیتا ہوں حکم خدا سے مگر میرے دل کی ہے ان کو یقیناً خبر
حاصل زندگی ہو گا وہ دن مِرا ان کے قدموں پہ جب دم نکل جائے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
منتظر دونوں عالم تھے جن کے لیے آئے وہ اور پھیلی خوشی ہر طرف
ان کے آتے ہی ظلمت کے بادل چھٹے، چھائی توحید کی روشنی ہر طرف
آئے جبریلؑ نُوری سواری لیے لا مکاں کی طرف مصطفیٰﷺ چل دئیے
فرش سے عرش تک نُور ہی نُور تھا دونوں عالم میں تھی سرخوشی ہر طرف
نُور کیسا وہ غار حِرا سے چلا، آج تک جس کی نُورانیت کم نہیں
کتنے سینوں میں وہ نُور محفوظ ہے چھن رہی ہے وہی روشنی ہر طرف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام حسینی ماہیے
باطل سے لڑائی تھی
سانچ کو آنچ نہیں
فتح حق نے پائی تھی
٭
عمروں کا رونا ہے
اپنے اشکوں سے
ہمیں داغ یہ دھونا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
درودِ لا زوال، راہِ انتہا حسینؑ ہے
وفائے کِردگار، شاہِ کربلا حسینؑ ہے
شعورِ التزامِ درِ امتحانِ دِین ہے
درونِ صبرِ کُلِ دِینِ مصطفیٰؐ حسینؑ ہے
انہیں یہ فخر کھا گیا کہ جنگ جیت تو گئے
ہیں خوش نصیب ہار میں ہمیں ملا حسینؑ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
بوسہ گہ جبکہ نبیؐ کی تہِ شمشیر آئی
خُلد سے خاک بسر مادرِ شپیرؑ آئی
سرِ مقتل یہی کرتی ہوئی تقریر آئی
بیٹا کس جا ہو؟ تِری مادرِ دلگیر آئی
مجکو ہر حور ہے ہاتھوں سے سنبھالے آئی
کوکھ کی آنچ ہے اے ماہ لقا لے آئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہے شہادت کہ ہلاکت کہ اجل بولتی ہے
مرضئ رب سرِ میدانِ جدل بولتی ہے
یہ زباں حق کی زباں ہے دم گفتار تو ہو
پھر ہو دربار، کہ مقتل، کہ محل بولتی ہے
ایک وعدہ ہے فقط وعدۂ طفلیِ حسینؑ
جس کو قاموسِ تغیّر بھی اٹل بولتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام (مسدس)
سوارِ دوشِ محمدﷺ کا رتبۂ عالی
حدیثِ عجز ہے میرا بیانِ اجمالی
کُھلی ہے آج تخیّل کی بے پر و بالی
دکھائی دیتی ہیں لفظوں کی جھولیاں خالی
یہاں ضعیف ہر اظہار کا وسیلہ ہے
بس ایک دیدۂ خوں بار کا وسیلہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حق کا پیغام زمانے کو سُنایا تُو نے
اَوج پر خاک نشینوں کو بٹھایا تُو نے
کام دشوار جو تھا کر کے دِکھایا تُو نے
دے کے سر حق و صداقت کو بچایا تُو نے
کِشت اِسلام کو سر سبز بنایا تُو نے
مرحبا حق کے پرستار تِرا کیا کہنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کیا خواب دیکھتا ہے دیوانہ حسینؑ کا
چادر حسینؑ کی ہے، سرہانہ حسینؑ کا
پھولوں کو موت آ گئی اس حادثہ کے بعد
خوشبو سا اُڑنا مُڑ کے نہ آنا حسینؑ کا
کیا دور ہے یزید بھی مانگے ہے یہ دعا
لوٹا دے اے خدا وہ زمانہ حسینؑ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
عقد کبریٰ، سے ہوا جب قاسمِؑ نوشاہ کا
اور ہوا بیت الشرف میں عقد مہر و ماہ کا
تخت کی شب کو ہوا انجام یہ اس ماہ کا
صبح دولہا ہو گیا عازم عدم کی راہ کا
غم سے شہزادے کے غمکش شہزادی ہو گئی
شیون و غم سے مبدل اس کی شادی ہو گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
لب پر شہداء کے تذکرے ہیں
لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں
جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو
ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں
میدان کا دل دہک رہا ہے
دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وارثِ سیدؐ الانام حسینؑ
تم پہ اللہ کا سلام حسینؑ
سب جوانانِ خُلد کے سرورؑ
ہیں امامِ حسنؑ، امام حسینؑ
کوثر و سلسبیل کے مختار
تشنہ لب اور تشنہ کام حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہمتِ جُنبشِ لب کہاں
میں کہاں مدحِ زینبؑ کہاں
وہ تو گُفتارِ زینبؑ میں تھا
لہجۂ مرتضیٰؑ اب کہاں
ان کے دربارِ دُربار میں
جرأتِ عرضِ مطلب کہاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
شبیرِؑ نامدار پہ لاکھوں سلام ہو
شایانِ ذوالفقار پہ لاکھوں سلام ہو
جِس دوش پر نجاتِ دو عالم کا بار ہے
اُس دوش کے سوار پہ لاکھوں سلام ہو
گُلہائے دیں کو رنگ ملا جس کے خون سے
اُس نازشِ بہار پہ لاکھوں سلام ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
آہوئے کعبہ قربانئ داور ہے حسینؑ
فدیۂ اُمتِ مرحومِ پیمبرﷺ ہے حسینؑ
بیکس و بے وطن و بیدل و بے پر ہے حسینؑ
صبرِ ایوبؑ کی شمشیر کا جوہر ہے حسینؑ
گو کہ تلوار پھری حلق پہ کئی باری
شکر پر خالق باری کا کیا ہر باری
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
صبا کو کس نے چمن میں سُبک خرام کیا
سحر کے وقت ستاروں کو ہم کلام کیا
تِرے ہی عشق نے بخشی ہے اس کو آزادی
جبھی تو دل نے خِرد کو بھی زیرِ دام کیا
بدلتے رہتے ہیں شام و سحر سبھی موسم
کہ گردشوں کو ازل سے یونہی مدام کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف
دل کا قبلہ کر لیا ہے ان کے روضے کی طرف
حشر میں اذن شفاعت مصطفیٰﷺ کو ہے ملا
تک رہی ہیں امتیں آقاﷺ کے چہرے کی طرف
ناز برداری خدا کرتا ہے یوں محبوبﷺ کی
سمت قبلہ پھیر دی اقصیٰ سے کعبے کی طرف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
علیؑ المرتضیٰؑ شیرِ خدا ہیں
کہ اُن سے خوش حبیبِ کبریا ہیں
اگر کمزور ہوں تو غم نہیں ہے
مُمِد میرے علیؑ مشکل کشا ہیں
یہی ہیں والدِ شبیرؑ و شبرؑ
یہی سرتاجِ بنتِ مصطفیٰؐ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شجاعت ناز کرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے
وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے
صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے
حمیت ناز کرتی ہے، مروت ناز کرتی ہے
شہ خوباں پہ ہر خوبی و خصلت ناز کرتی ہے
کریم ایسے ہیں وہ ان پر کرامت ناز کرتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تِرے ذکر پر نوازش کے سحاب اُمڈ کے برسیں
مِری آنکھ کے کٹورے تِراﷺ نام لوں تو چھلکیں
میں فقیر بن کے گلیوں میں تِریﷺ صدا لگاؤں
مِری زندگی کے یہ دن تِرےﷺ آستاں پہ گزریں
مِری بے قرار آنکھیں کبھی لیں بلائیں اُنﷺ کی
کبھی بام و در سے لپٹیں کبھی جالیوں کو چومیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار
تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اسرار
کہ رہتے ہیں وہ توصیف و ثنائے شہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
ورنہ وہ سیدِ عالی نسبی، ہاں وہی اُمی لقبی ہاشمی و مُطلبی و عربی و قرشی و مدنی
اور کہاں ہم سے گنہ گار
عشق کے رنگ میں رنگ جاؤ مِرے یار
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شمعِ ہدایت
اے کہ تِرے جلال سے ہِل گئی بزمِ کافری
رعشۂ خوف بن گیا رقصِ بُتانِ آذرِی
خُشک عرب کی ریگ سے لہر اُٹھی، نیاز کی
قُلزمِ نازِ حُسن میں، اُف ری تِری شناوری
اے کہ تِرا غُبارِ راہ، تابشِ رُوئے ماہتاب
اے کہ تِرا نشان پا، نازِشِ مہرِ خاوری
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
یہ چاند نکلا محرم کا، روشنی ہے ابھی
حسینؑ زندہ ہے دنیا میں زندگی ہے ابھی
ابھی تو قافلہ کرب و بلا میں پہنچا نہیں
مِری سکینہؑ کے چہرے پہ تازگی ہے ابھی
علیؑ کی بیٹی ابھی ہے امیر دیکھو ذرا
وہ اپنے عونؑ و محمدؑ کو چُومتی ہے ابھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ظالم کی یہ روش کہ جفا پر جفا رہے
مظلوم کی ہے فکر وفا پر وفا رہے
لازم ہے حق کے سامنے یوں سر جھکا رہے
آ جائے گر قضا بھی تو سجدہ ادا رہے
گر چاہتے ہو نسل کا سونا کھرا رہے
لازم ہے آل پاکؑ سے بھی رابط رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ذکرِ شبیرؑ تو ہے لفظ و بیاں سے آگے
دل کا غم لے کے بڑھو آہ و فغاں سے آگے
وہی کر سکتا ہے عرفانِ حسینؑ ابن علیؑ
دیکھ سکتا ہے جو ہر خطرۂ جاں سے آگے
اِس حقیقت کو سمجھتا ہے شہیدوں کا لہو
کِن بہاروں کا سماں ہے رگِ جاں سے آگے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کچھ نے کہا کہ اس طرح کچھ کا تھا فیصلہ کہ یوں
مر کے مگر حسینؑ نے جینا سکھا دیا کہ یوں
صبر کی ڈھال تیغ کو کرتی ہے کُند کس طرح
کوئی اگر یہ سن سکے کہتی ہے کربلا کہ یوں
دشت کی کیا بساط تھی، پانی کی کیا مجال تھی
اہلِ رضا کو علم تھا اس کی ہے یہ رِضا کہ یوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تا حشر ہو گئی وہ عبادت حسینؑ کی
بے مثل راہِ حق میں شہادت حسینؑ کی
برکت غمِ حسینؑ میں روزافزوں یوں نہیں
مقصد سے کی خدا نے وِلادت حسینؑ کی
تقلید پرورِش میں تھی ماؤں کی کچھ نہ کم
آئی کہاں کسی میں سعادت حسینؑ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دنیا میں آج حشر کا دن آشکار ہے
سبطِ نبیؐ کے سینے پہ قاتل سوار ہے
چلّا رہی ہے خیمے سے زینبؑ اتر لعیں
بھائی کا میرے زخموں سے سینہ فگار ہے
کہتے تھے شاہؑ شمر سے مجھ کو نہ ذبح کر
دنیائے چند روزہ کا کیا اعتبار ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
پڑ گئی شہ کی نظر جس پر وہ رحمت بن گئی
خاکِ ارضِ کربلا قدموں سے جنت بن گئی
اللہ اللہ کیا شرف کیا مرتبے اس کو ملے
ہر دو عالم کی عبادت جس کی ضربت بن گئی
کیا ثنا ہو آپ کی دستِ خدا نفسِ خدا
ہر عمل اور ہر ادا قرآں کی آیت بن گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اپنی منزل اسے، آشیاں بھی لکھوں
میں مدینے کو دارِ اماں بھی لکھوں
آپﷺ کو رب کا رازِ نہاں بھی لکھوں
جاوداں، محرم و رازداں بھی لکھوں
ہاں سراپا انہیں مہرباں بھی لکھوں
میں انہیں رحمتِ بے کراں بھی لکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دربار رسالتﷺ میں
وہ جس کی شان میں رطب اللساں
آیاتِ قرآنِ مقدس ہیں
وہ جس کے آستانِ حق
پہ جبرائیلؑ سجدہ ریزہ ہوتا ہے
فرشتے جس کو امن و آشتی کا
گھر سمجھتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کتنا محبوب وہ دن اور وہ مہینہ ہو گا
جب مِرے پیشِ نظر شہرِ مدینہ ہو گا
آگے ہر اک سے ہو گی نِگہِ شوق مِری
سُوئے طیبہ جو رواں اپنا سفینہ ہو گا
زندگی ختم اگر ہو گی درِ اقدسؐ پر
وہ مِری موت نہ ہو گی، مِرا جینا ہو گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبی کی اس قدر مجھ پہ ہوئی رحمت مدینے میں
مجھے تو مل گئی یارو! مِری جنت مدینے میں
پلک بھی کب جھپکتی ہے، کھڑا ہوں در پہ مولاؐ کے
گئی جانے کہاں سونے کی وہ عادت، مدینے میں
جو سر سجدے میں رکھا پھر کہاں خود سے اٹھا پایا
مجھے سجدے میں روکے ہے کوئی طاقت مدینے میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آبروئے دو جہاں ہیں آپﷺ مکہ کی قسم
آپؐ کی کملی ہے مولا پردۂ بیت الحرم
کملی کیا ہے کیا لکھوں فرمائیے شاہِ اُمم
دل میں جذبے موجزن ہیں، سر بسجدہ ہے قلم
چادرِ تطہیر ہے یہ مولا کملی آپﷺ کی
دُھوپ میں ہم پر بھی مولا اپنا دامانِ کرم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
غمِ حسین میں فنا ہوئے
ہم کو اپنی ذات مل گئی
کربلا کے دُکھ وہی رہے
دن ڈھلا تو رات مل گئی
نام لے کے آپ کا حسینؑ
موت کو حیات مل گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کمالِ عشق کا روشن دیا ہے
لقب جس کا شہیدِ کربلا ہے
شہیدِ کربلا پر جو فدا ہے
وہی دیوانۂ خیرالوراؐ ہے
جوانانِ ارم کا شاہ زادہ
حسینِؑ ابنِ علیؑ المرتضیؑ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی
رگوں میں خون بدن میں نکھار ہے پانی
گلوں میں حسن چمن میں بہار ہے پانی
نمو کی بزم میں پروردگار ہے پانی
نگاہ خلق سے غائب جو ہے فضاؤں میں
امام غیب کا بھرتا ہے دم ہواؤں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سُنبلِ تر ہے پریشاں زُلفِ اکبرؑ دیکھ کر
کٹ گیا ہے ماہِ تاباں رُوئے انور دیکھ کر
آب ہو جائے گا حُسنِ رُوئے اکبرؑ دیکھ کر
سامنے آئینہ لانا، اے سکندر دیکھ کر
جب چلی اعداء پہ تیغِ شہؑ، پکارے جبرئیلؑ
یا حسینؑ ابنِ علیؑ! خادم کے شہپر دیکھ کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
الوداع اے افتخارِ نوعِ انساں الوداع
بادشاہِ کم سپاہِ،۔ اہلِ ایماں الوداع
اے تمنائے دلِ زہرائےؑ بے کس ہے دریغ
اے ستم گشتہ، علیؑ کے خواہشِ جاں الوداع
ہو گئے پانی جگر، حسرت سے جب تُو نے کہا
خشک لب اہلِ حرم سے ہو کے گریاں الوداع
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہو گئے اس حادثے کو گو کہ چودہ سو برس
آج تک سینہ ہے چھلنی اور دل صد پارہ ہے
جو نفس سینے میں ہے، اک شمعِ ماتم خانہ ہے
آ رہی ہے کربلا کی خاک سے پیہم صدا
زندۂ جاوید ہیں جو لوگ، مر سکتے نہیں
سر سے لے کر پاؤں تک، اک نخل ماتم میں بھی ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
یا علیِؑ مرتضیٰؑ اے رازدانِ مصطفیٰﷺ
مصطفیٰؐ کے بعد تیرا ہے مکانِ مصطفیٰؐ
جس کا مولیٰ مصطفیِٰ ہے اُس کا مولیٰ تُوؑ بھی ہے
دوست رکھتے ہیں تجھے سب دوستانِ مصطفیٰؐ
شوہرِ زہراؑ ہے تُوؑ، صلِ علیٰؐ صلِ علیٰﷺ
تجھ سے قائم ہے جہاں میں خاندانِ مصطفیٰؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دُخترِ ختمِ الرُسل جانِ پیمبرﷺ فاطمہؑ
اے وقارِ بُو ترابیؑ، شانِ حیدرؑ فاطمہؑ
رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر، فاطمہؑ
سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہؑ
لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہؑ
آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
بحر و بر، برگ و شجر، پانی و پتھر خاموش
روبرو آقاﷺ کے عالم ہیں سراسر خاموش
ابن خطابؓ تو نکلے تھے کہ سر لے آئیں
اک نظر آقاؐ کی، اور ہو گئے تیور خاموش
پیالہ بھر پانی میں انگشت مبارک کا کمال
برکتیں دیکھ کے رہ جائیں سمندر خاموش
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
نہ منصب سے غرض، نہ خواہشِ جاگیر رکھتے ہیں
جو رکھتے ہیں تو عشقِ روضۂ شبیرؑ رکھتے ہیں
خیالِ زلف و روئے حضرتِ شبیرؑ رکھتے ہیں
ہم اپنی چشم میں دن رات کی تصویر رکھتے ہیں
شبِ ہفتم سے ہے غیظ و غضب عباسِؑ غازی کو
نہ کاندھے سے سپر، نہ ہاتھ سے شمشیر رکھتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دھرتی پہ آسمان اُترتا چلا گیا
کعبہ خوشی کے مارے سرکتا چلا گیا
ان کا ظہور ہوتا ہے جیسے کہ الکتاب
مُنکر کے دل میں تیر سا چلتا چلا گیا
نرجس سے کہہ رہی ہے حکیمہ سلام ہو
اک نُور تیری گود کو بھرتا چلا گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حاضر ہیں ترے دربار میں ہم اللہ کرم، اللہ کرم
دیتی ہے صدا یہ چشم نم، اللہ کرم، اللہ کرم
ہیبت سے ہر اک گردن خم ہے ہر آنکھ ندامت سے نم ہے
ہر چہرے پہ ہے اشکوں سے رقم، اللہ کرم، اللہ کرم
جن لوگوں پہ ہے انعام تیرا ان لوگوں میں لکھ دے نام میرا
محشر میں مِرا رہ جائے بھرم اللہ کرم، اللہ کرم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہر اک وصفِ نبی، مرتضیٰ کی ذات میں ہے
تب ہی یہ نام سرِ لامکاں بھی سات میں ہے
بھلا علیؑ سے کسی کا مقابلہ کیسا
علیؑ کے جیسا کہاں کوئی کائنات میں ہے
علیؑ کے نام ملتا ہے نورِ دیں و ایماں
علیؑ تو آج بھی روشن میری حیات میں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
در شان فاطمہؑ بنت احمدﷺ
اے کہ جس کے رخ سے روشن ہے تمام کائنات
جس کے ہونے کے لیے ہے اہتمام کائنات
باپ جس کا افسر ہر خاص و عام کائنات
اور علیؑ مرتضیؑ، شوہر، امام کائنات
جس کے شیرازے کا ہر ہر فرد نور کبریا
جس کے دروازے پہ ہوتا ہے ظہور کبریا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
اجالا جس کا ہے دوجہاں میں وہ میرے آقا کی روشنی ہے
انہیں کے قدموں کی برکتوں سے یہ زندگی آج زندگی ہے
انہیں کا چرچا ہے آسماں پر زمیں پہ بھی ذکر ہے انہیں کا
ہر ایک گل میں ہر اک کلی میں مہک انھیں کی بسی ہوئی ہے
گناہگاروں کے حق میں رحمت پرہیزگاروں کے حق میں راحت
وہ ذات اقدس کہ جس کی شفقت ہر اک پہ یکساں برس رہی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں
لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امامؑ تیرا سلام لکھوں
وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے
وفا کے سجدوں کے شاہؑ کو ہی میں آج شاہؑ و امامؑ لکھوں
یہاں سکینہؑ کا، اصغرؑ، اکبرؑ کا اور قاسمؑ کا تذکرہ ہے
ورق ورق پر ہیں اشک پھیلے میں حرف حرف احترام لکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
اے علیؑ کی لاڈلی، آغوشِ زہراؑ کی پلی
ہو بہو صورت میں زہراؑ، اور تیور میں علیؑ
اپنے بھائی کی بہن، روحِ بہارِ کربلا
پیکرِ ہمت، شریکِ کارزارِ کربلا
تیری ہستی آیۂ تطہیر کی تفسیر تھی
تیرے چہرے کی جلالت چادرِ تطہیر تھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وہ قتل گاہ، وہ لاشے، وہ بے کسوں کے خیام
وہ شب، وہ سینۂ کونین میں غموں کے خیام
وہ رات، جب تِری آنکھوں کے سامنے لرزے
مرے ہوؤں کی صفوں میں، ڈرے ہوؤں کے خیام
یہ کون جان سکے، تیرے دل پہ کیا گزری
لُٹے جب آگ کی آندھی میں، غمزدوں کے خیام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہے عکسِ گیسو و رخِ اکبرؑ کہاں کہاں
سُنبل کہاں کہاں ہے، گُلِ تر کہاں کہاں
کوفے میں، کربلا میں، بقیعہ میں، طوس میں
مدفوں ہوئے بتولؑ کے دلبر کہاں کہاں
گُلزار میں، جناں میں، ختن میں، تتار میں
پھیلی ہے نگہتِ گلِ حیدرؑ کہاں کہاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کڑیل جواں کی لاش پہ آئے حسینؑ جب
قلبِ حسینؑ چاک ہُوا درد کے سبب
کہتے تھے بے وطن کا سہارا نہیں ہے اب
دیکھا سُوئے فُرات پکارے یہ شہؑ کے لب
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ
دل کو فگار کرتا ہے، لختِ جگر کا داغ
آنکھوں کا نُور کھوتا ہے، نُورِ نظر کا داغ
مرنا جوان بیٹے کا ہے، عمر بھر کا داغ
یہ حال ابنِ فاطمہؑ کے دل سے پوچھیے
زخمِ جگر کے درد کو، گھائل سے پوچھیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
طیبہ کو چلے پھر تیری الفت کے طلبگار
بے چین ہیں فرقت سے محبوں کے دلِ زار
پائیں تو شفا یاب ہوں سارے تیرے بیمار
سرکارﷺ دوا اُن کے لیے ہے تیرا دیدار
رب نے تو بنایا ہے فقط ایک ہی شہ کار
تاجِ سرِ یزداں کا بنا ہے، دُرِ شہوار
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
میری زباں پہ وردِ الف لام میم ہے
یہ ابتدائے حمدِ خدائے کریم ہے
روزِ ازل سے تا بہ ابد ہے وہ جلوہ گر
لا ریب اس کی ذات قدیم القدیم ہے
وہ جانتا ہے کس کی ضرورت ہے کس قدر
وہ بے طلب بھی دیتا ہے ایسا کریم ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شاہ دیں سلطانِ خوباں الصلوٰۃ والسلام
خلق پر خالق کے احساں الصلوٰۃ والسلام
اے علاجِ دردِ عصیاں الصلوٰۃ والسلام
راحتِ قلبِ پریشاں، الصلوٰۃ والسلام
باعثِ ایجادِ عالم آپؐ پر لاکھوں درود
قصۂ ہستی کے عنواں الصلوٰۃ والسلام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جب نام سے آقاﷺ کے میں نعرہ لگا اٹھا
پل بھر میں مِرے سر سے انبار بلا اٹھا
روضہ کا وہ نقشہ میں لے آیا تصور میں
جب درد مِرے دل میں ہر دن سے سِوا اٹھا
اقرا کی صدا اب بھی باقی ہے فضاؤں میں
برکت لیے قرآں کی وہ غار حِرا اٹھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرکارؐ ہیں سر چشمۂ الطاف و عطا مانگ
اللہ سے محبوبؐ کے صدقے میں دُعا مانگ
کونین کی دولت ہے یہی، صبح و مَسا مانگ
وہ خوش تو خدا خوش ہے، تُو بس ان کی رضا مانگ
اس در سے طلب کرنے کے بھی ہیں ادب آداب
پڑھ صلِ علیٰ، ہاتھ نہیں، جھولی اُٹھا، مانگ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کون سمجھے کون جانے رتبۂ ابن علیؑ
بوسہ گاہِ مصطفیٰﷺ ہے چہرۂ ابن علیؑ
ان کی نِسبت سے ہے قائم افتخار زندگی
ٹوٹنے پائے نہ پھر یہ رشتۂ ابن علیؑ
جان دے دی پر یزید وقت کی بیعت نہ کی
مرحبا، صد مرحبا، اے جذبۂ ابن علیؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
پیاسے پہ عجب وقت قیامت کا پڑا ہے
اک لاش ابھی لایا ہے، اک لینے چلا ہے
یہ حُر کا ہے، وہ بھائی کا، یہ بیٹے کا لاشہ
زہراؑ کا پسر گنجِ شہیداں میں کھڑا ہے
زینبؑ تِری چادر کا خدا حافظ و ناصر
لشکر نہ علم اور نہ علمدار بچا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کیا تعجب ہے جو سب کا مدعا عباسؑ ہیں
جو دلِ حیدرؑ سے نکلی وہ دعا عباسؑ ہیں
مختصر الفاظ میں وہ با وفا عباسؑ ہیں
ہے وفا اک لفظ جس کا ترجمہ عباسؑ ہیں
بزم میں اُم البنین کا مدعا عباسؑ ہیں
رزم میں شیرِ خداؑ کا حوصلہ عباسؑ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
فضائیں ماتم کُناں رہیں گی زمانہ وقفِ الم رہے گا
٭کسے خبر تھی یہ خونِ ناحق قضا کے دامن پہ جم رہے گا
یہ وہ لہو ہے ضمیرِ انساں میں جس کی خوشبو بسی رہے گی
صدائے ھَل مِن سے نوعِ انساں کا سر خجالت سے خم رہے گا
حدیثِ مُرسلﷺ ہے تا قیامت رہیں گے باہم کتاب و عترت
لبوں پہ آلِ نبیﷺ رہیں گے تو دل پہ قرآں رقم رہے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
تُو نے حُسینؑ دہر کو ششدر بنا دیا
طوفاں کو ناؤ، سیل کو لنگر بنا دیا
ان تلخیوں کو قند بنایا جو زہر تھیں
پھر مُسکرا کے قندِ مُکرر بنا دیا
مولا حبیب ابنِ مظاہر کے شیب کو
تُو نے شبابِ قاسمؑ و اکبرؑ بنا دیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُسؑ کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عباؑ کہیں اس کو
خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اس کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حسینؑ تجھ کو یہ عرشِ بریں کرے ہے سلام
وہاں سے آن کے روح الامیںؑ کرے ہے سلام
فقط نہ گردوں ہی تسلیم میں ہے تیرے خم
تجھے تو عیسیٰؑ گردوں نشیں کرے ہے سلام
وحوش خاک پہ جتنے ہیں اور ہوا میں طیور
جہاں ہے جو کوئی تجھ کو وہیں کرے ہے سلام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وقتِ رخصت باپ کا اکبر کو مڑ کر دیکھنا
کربلا میں امتحانِ صبرِ سرورؑ دیکھنا
مرتبے اللہ اکبر اس کے کیا ہوں گے رقم
ہو عبادت صرف جس کا رُوئے انور دیکھنا
میرے مولائے علیؑ مشکل کشائے خلق ہیں
جب کوئی مشکل پڑے یہ نام لے کر دیکھنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہم صورتِ محبوبِؐ خدا تھے علی اکبرؑ
شوکت میں شہِ عقدہ کشا تھے علی اکبرؑ
شپیرؑ کی پیری کے عصا تھے علی اکبرؑ
اور بانو کی آنکھوں کی ضیا تھے علی اکبرؑ
جلوہ رخِ پُر نُور پہ تھا نُورِ نبیﷺ کا
روشن تھا گھر اس ماہ سے زہراؑ و علیؑ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سرِ نیزہ جو روشن ہو گیا ہے
رسول پاکؐ کے گھر کا دِیا ہے
اندھیری رات کی پوروں میں جگنو
با انداز شرر جل بُجھ رہا ہے
ہوائیں سر پٹخ کر رہ گئیں ہیں
چراغِ استقامت جل رہا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
بات ساری یہ سعادت کی ہے
میں نے اُس گھر سے محبت کی ہے
میں کہاں اور کہاں مدحِ حسینؑ؟
یوں سمجھ لو کہ جسارت کی ہے
گھر کا گھر اور شہادت کی نماز
اِس طرح کس نے امامت کی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
آنکھوں میں نور دل کا اُجالا حسینؑ ہیں
سرکارِ دو جہاںﷺ کا حوالہ حسینؑ ہیں
قربان راہِ حق میں بہتر کو کر دیا
یوں جان دی کہ آج بھی زندہ حسینؑ ہیں
تسکینِ قلب مولیٰ علیؑ ان کی ذات ہے
نورِ نگاہِ فاطمہؑ زہراؑ حسینؑ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
یوں تو ہے فکرِ بشر کی انتہا میرا حسینؑ
اک نئی تاریخ کی ہے ابتداء میرا حسینؑ
دِینِ حق خطرہ میں تھا کام آ گیا میرا حسینؑ
مشکلیں سب کی تھیں اور مشکلکشا میرا حسینؑ
ساری دنیا کے لیے اک آسرا دین رسولﷺ
اور نبیﷺ کے دِین کا تھا آسرا میرا حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
خوشا کہ دیدہ و دل میں ہے جائے آلِ رسولﷺ
زہے کہ وِردِ زبان ہے ثنائے آلِؑ رسولﷺ
اساسِ دینِ مبیں ہے وِلائے آلِؑ رسولﷺ
جو سچ کہوں تو ہے ایماں عطائے آلِ رسولﷺ
لیے ہے دامنِ دل میں عطائے آلِؑ رسولﷺ
تونگروں سے غنی ہے گدائے آلِؑ رسولﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جو معتقد نہیں ہے علیؑ کے کمال کا
ہر بال اُس کے تن پہ ہے موجب وبال کا
عزت علیؑ کی قدر علیؑ کی بہت ہے دور
مورد ہے ذوالجلال کے عز و جلال کا
پایا علیؑ کو جا کے محمدؐ نے اُس جگہ
جس جا نہ تھا لگاؤ گمان و خیال کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ان سب میں جو شریک ہے وہ ہے علیؑ فقط
بارہ امام، چاردہ معصوم، پنجتن
پھر عشرہ مبشرہ اور چار یار بھی
ان سب میں جو شریک ہے وہ ہے علیؑ فقط
سب سے جدا ہے اور ہے سب میں شمار بھی
ہجرت کی شب تھا بستر احمدؐ پہ محوِ خواب
اک شب میں جانشیں بھی بنا جاں نثار بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حسینؑ ابنِ علیؑ دنیا کو حیراں کر دیا تُوؑ نے
سرابِ تشنگی کو آبِ حیواں کر دیا تو نے
نظر ڈالی تو ذروں کو جواہر میں بدل ڈالا
قدم رکھا تو شعلوں کو گُلستاں کر دیا تو نے
تِریؑ کشتئ جاں کو غرق کرنے جب بڑھا طوفاں
تو خود طوفاں کو غرقِ کشتئ جاں کر دیا تو نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سلامی ابرِ فلک کیوں نہ اشکبار رہے
غمِ حسینؑ میں جب برق بے قرار رہے
لکھا تھا یہ قلمِ موج نے میانِ فرات
کہ پیاسا نہر میں عباسِؑ نامدار رہے
عزیزو چرخِ چہارم پہ ہے علیؑ کی شبیہ
کہ تا ملائکہ کو ہجر میں قرار رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حسینؑ لختِ دلِ مصطفیٰؐ و جانِ بتولؑ
حسینؑ سُنبلِ باغ علیؑ، بہشت کا پھول
حسینؑ باعثِ توقیر نوعِ جن و بشر
حسینؑ درس نگہبانئ ندائے رسولﷺ
حسینؑ دِین کی بنیاد، زندگی کا شعور
حسینؑ آیتِ حقّانیت کی شانِ نزول
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سرورِ قلبِ پیمبرﷺ حسینؑ زندہ باد
"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"
ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسینؑ
کہ خود نبیؐ کے ہے لب پر حسین زندہ باد
کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا
مِرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
چرچا ہے جہاں میں تری تسلیم و رضا کا
زیبا ہے لقب تجھ کو امام الشہداء کا
نازِ بشریت ہے تِرا سجدۂ آخر
رخ پھیر دیا جس نے زمانے کی ہوا کا
نذرانۂ جاں پیش کیا دِین کی خاطر
تو باب نیا کھول گیا صِدق و صفا کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ، اللہ، کیا حسیں مداح کی تقدیر ہے
مدح خوانی کے صِلے میں خُلد کی جاگیر
راحتِ قلبِ رسالتؐ کی شہادت کے طفیل
سوزِ عشقِ مصطفیٰؐ سینوں میں عالمگیر ہے
آج محفل میں ملائک گوش بر آواز ہیں
کیوں نہ ہوں میری زباں پر مدحتِ شبیرؑ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
افق شفق میں ہے ظاہر وہی لہو اب تک
مہک رہی ہے جہاں میں وہ مُشکبو اب تک
حسینؑ نے جو کیا تھا وہ آخری سجدہ
فضا میں گونج رہی ہے صدائے ہُو اب تک
جو خوں بہا تھا گلوئے امامؑ سے اس دن
شفق کے رُوپ میں چمکے ہے وہ لہو اب تک
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دنیا پہ قرض ہے ابھی احساں حسینؑ کا
مقروض ہی رہے گا ہر انساں حسینؑ کا
تاریخ اپنے خوں سے سرِ کربلا لکھی
ہے اک کتابِ عشق، بیاباں حسینؑ کا
سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا
عُشّاق میں ہے نام نمایاں حسینؑ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
لالۂ صحرائے کربلا
وہ حسینؑ ابن علیؑ نازِ علیؑ، جانِ علیؑ
لالۂ پہلوئے زہراؑ، گوہرِ کانِ علیؑ
وہ حسینؑ ابنِ علیؑ، وہ مایۂ آلِع رسولؐ
قبلۂ اہلِ تمنا، کعبۂ آلِؑ رسولؐ
وہ حسینؑ ابن علیؑ، وہ مرہمِ انسانیت
وہ نگہدارِ بقائے عالمِ انسانیت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دامِ دنیا نہ کوئی پیچِ گُماں لایا ہے
سُوئے مقتل تو اسے حکمِ اذاں لایا ہے
خونِ شبیرؑ سے روشن ہیں زمانوں کے چراغ
شِمر نسلوں کی ملامت کا دھواں لایا ہے
گونج اس گنبدِ گیتی میں ہے دم دم اس کی
اک بیاں وہ جو سرِ اوجِ سِناں لایا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جس نے کی تیروں کی بارش میں عبادت وہ حسینؑ
جس نے دی میدانِ کربل میں شہادت وہ حسینؑ
ہیں جگر گوشے علیؑ کے، فاطمہؑ کے نورِ عین
ہیں جو سلطانِ جہاں کے دل کی راحت وہ حسینؑ
جس کی مظلومی پہ ساتوں آسماں ہیں اشکبار
مومنوں کوجس سے ہے الفت نہایت، وہ حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میسر جو نہیں مجھ کو یہاں اِملاک لے آنا
مدینے کی گلی سے تم، اُٹھا کر خاک لے آنا
مِری تسبیح بن جائے گی، موتی کام آئیں گے
بچا لینا کچھ آنسو،۔ دیدۂ نم ناک لے آنا
لگایا تھا نبیؐ نے جو کبھی، خود اپنے ہاتھوں سے
جو ممکن ہو تو، تم اس پیڑ کی مسواک لے آنا