Tuesday, 18 October 2022

آئینے سے نہ ڈرو اپنا سراپا دیکھو

آئینے سے نہ ڈرو اپنا سراپا دیکھو

وقت بھی ایک مصور ہے تماشا دیکھو

کر لو باور کوئی لایا ہے عجائب گھر سے

جب کسی جسم پہ ہنستا ہوا چہرہ دیکھو

چاہیۓ پانی تو لفظوں کو نچوڑو ورنہ

خشک ہو جائے گا افکار کا پودا دیکھو

شہر کی بھیڑ میں شامل ہے اکیلا پن بھی

آج ہر ذہن ہے تنہائی کا مارا دیکھو

وہ جو اک حسرت بے نام کا سودائی ہے

اس کو پتھر نے بڑی دور سے تاکا دیکھو

حد سے بڑھنے کی سزا دیتی ہے فطرت سب کو

شام کو کتنا بڑھا کرتا ہے سایا دیکھو

اب تو سر پھوڑ کے مرنا بھی ہے مشکل نجمی

ہائے اس دور میں پتھر بھی ہے مہنگا دیکھو


حسن نجمی سکندرپوری

No comments:

Post a Comment