Tuesday 18 October 2022

نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا

 نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا 

عقب سے وار کرے چاہے جنگجو میرا 

لکیر کھینچ کے مجھ پہ وہ پھر مجھے دیکھے 

نگار و نقش میں چہرہ ہے ہو بہو میرا 

رقیب تشنہ تو جی بھر کے خاک چاٹے گا 

چٹخ کے ٹوٹ گیا ہاتھ میں سبُو میرا 

میں اپنی روح کی تاریکیوں میں جھانک چکا 

نکل سکا نہ کمیں گاہ سے عدو میرا 

یہ روپ اپنے مسیحا کا دیکھ کر ثاقب 

اٹک کے رہ ہی گیا سانس در گلو میرا


آصف ثاقب

No comments:

Post a Comment