Thursday, 31 December 2015
تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
ہم سے چناں چنیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں
مجھ سے چناں چنیں نہ کرو میں نشے میں ہوں
Wednesday, 30 December 2015
منہ چھپانے لگے حیا کر کے
نیچی نظروں کے وار آنے لگے
کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آ جاتا
نہیں راز ہستی جتانے کے قابل
لب ترے لعل عناب ہيں دونوں
يارو مجھے معاف رکھو ميں نشے ميں ہوں
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
يہ قول کسی کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
غضب کيا ترے وعدے کا اعتبار کيا
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
سودا زدہ ہے تو یہ تدبیر کریں گے
کام فرمائیے کس طرح سے دانائی کو
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
رو لیتے تھے ہنس لیتے تھے بس میں نہ تھا جب اپنا جی
قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں
تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا
اک اک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں
گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا
دیکھا تجھے تو آرزوؤں کا ہجوم تھا
پایا تجھے تو کچھ بھی نہ تھا باقی رہا ہوا
ماتھے پر ٹیکا صندل کا اب دل کے کارن رہتا ہے
مندر میں مسجد بنتی ہے، مسجد میں برہمن رہتا ہے
ذرہ میں سورج اور سورج میں ذرہ روشن رہتا ہے
اب من میں ساجن رہتے ہیں، اور ساجن میں من رہتا ہے
رُت بیت چکی ہے برکھا کی اور پریت کے مارے رہتے ہیں
روتے ہیں، رونے والوں کی آنکھوں میں ساون
کسی بھی آخری حد سے گزرنے کا تکلف کیوں
چلتی رہتی ہے زمیں بھی آسماں رکتا نہیں
اب تک نہاں تھے جتنے اسرار کھل رہے ہیں
اے دل والو گھر سے نکلو دیتا دعوت عام ہے چاند
اے من والی بدلی کالی روپ کا رس برساتی جا
دوستو فرصت دلداری دنیا تھی کہاں
Tuesday, 29 December 2015
آخری حربہ ہمیں اب آزمانا چاہیے
یوں تو اوروں کو بھی ہر ممکنہ نعمت دی ہے
ہر روز راہ تکتی ہیں میرے سنگھار کی
آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
دل ہے آئینہ حیرت سے دو چار آج کی رات
غمِ دوراں میں ہے عکسِ غمِ یار آج کی رات
آتشِ گل کو دامن سے ہوا دیتی ہے
دیدنی ہے روشِ موجِ بہار آج کی رات
آج کی رات کا مہماں ہے ملبوسِ حریر
اس چمن زر میں اگتے ہیں شرر آج کی رات
کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
عجب نہیں جو محبت مری سرشت میں ہے
آپ کا زرتار دامن کاروان رنگ ہے
دل سے ہر گزری بات گزری ہے
چہرہ اداس اداس تھا میلا لباس تھا
امید دید دوست کی دنیا بسا کے ہم
اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگِ جاں ہو گئیں
یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے
میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
اپنی تصویر کے پیچھے تِرا چہرا دیکھا
جس کی خوشبو سے مہک جائے شبستان وصال
دوستو تم نے کبھی وہ گل صحرا دیکھا
اجنبی بن کے ملے دل میں اترتا جائے
شہر میں کوئی بھی تجھ سا نہ شناسا دیکھا
یہ دنیا ہے اے قلب مضطر سنبھل جا
Monday, 28 December 2015
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
دل کی دیوار و در پہ کیا دیکھا
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
محبت کا ہو گا اثر رفتہ رفتہ
ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی
ضعف آتا ہے دل کو تھام تو لو
دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا
جھوٹا نکلا قرار تیرا
گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
ہمیں اس صنم سے ہے الفت بہت
وہ چپ ہو گئے مجھ سے کیا کہتے کہتے
وہ ملیں آ کے ملا کوئی نہ ایسا تعویذ
کچھ مرے کام نہ آئے گا طبیبوں کا علاج
Sunday, 27 December 2015
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
Saturday, 26 December 2015
آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم
چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا
اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں
جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا
یہ رات رات بھی ہے اوڑھنا بچھونا بھی
اس ایک رات میں ہے جاگنا بھی سونا بھی
وہ حبس دم ہے زمیں آسماں کی وسعت میں
کہ ایسا تنگ نہ ہو گا لحد کا کونا بھی
انہیں سوال ہی لگتا ہے میرا رونا بھی
عجب سزا ہے جہاں میں غریب ہونا بھی
غم کی بستی عجیب بستی ہے
موت مہنگی ہے جان سستی ہے
میں اسے کیوں ادھر ادھر ڈھونڈوں
میری ہستی ہی اس کی ہستی ہے
عالم شوق ہے عجب عالم
آسماں پر زمین بستی ہے
خواب ہی میں رخ پر نور دکھائے کوئی
غم میں راحت کا بھی پہلو نظر آئے کوئی
سامنے اس کے دل و جان و جگر میں رکھ دوں
ہاں مگر ہاتھ میں خنجر تو اٹھائے کوئی
اپنے ہی گھر میں ملا ڈھونڈ رہے تھے جس کو
اس کے پانے کے لیے خود ہی کو پائے کوئی
میں تو اک خواب ہوں اس خواب سے تو پیار نہ کر
میں تو اک خواب ہوں اس خواب سے تُو پیار نہ کر
پیار ہو جائے تو پھر پیار کا اظہار نہ کر
میں تو اک خواب ہوں ۔۔۔۔۔
لوٹ کے پھر کبھی گلشن میں نہیں آئیں گی
اپنے ہاتھوں میں خوابوں کو گرفتار نہ کر
میں تو اک خواب ہوں ۔۔۔۔۔
وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں
وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں
اتنا تو بتا دے کوئی ہمیں کیا پیار اسی کو کہتے ہیں
وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں۔۔۔
کچھ وہ شرمائے رہتے ہیں کچھ ہم شرمائے رہتے ہیں
وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں
اتنا تو بتا دے کوئی ہمیں کیا پیار اسی کو کہتے ہیں
عشق میں دل بن کے دیوانہ چلا
آشنا سے ہو کے بے گانہ چلا
قلقلِ مِینا سے آتی ہے صدا
بھر چکا جس وقت پیمانہ چلا
بے زبانوں کو بھی آئی ہے زباں
بیڑی غل کرتی ہے، دیوانہ چلا
گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ
(دل اور دماغ)
گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ
آنکھوں کی طرح پھڑک گیا شاہ
پنجے سے پلک کے پھول اٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا
جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
ساقی قدح شراب دے دے
بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اس آفت جاں کو
سخن عشق نہ گوش دل بیتاب میں ڈال
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
یہ میں بھی سمجھوں ہوں یارو وہ یار یار نہیں
Friday, 25 December 2015
گلشن کی فقط پھولوں سے نہیں کانٹوں سے بھی زینت ہوتی ہے
میں نے جب سے تجھے اے جان غزل دیکھا ہے
یوں بیخودی سے کام لیا ہے کبھی کبھی
شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے
دل تجھ کو دیا لے مرا غمخوار یہی تھا
جہاں تک ہم ان کو بھلاتے رہے ہيں
بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
کس کی برق شوخی رفتار کا دلدادہ ہے
ذرہ ذرہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے
ہے غرورِ سرکشی صورت نمائے عجز بھی
منقلب ہو کر بسانِ نقشِ پا افتادہ ہے
خانہ ویراں سازئ عشقِ جفا پیشہ نہ پوچھ
نامرادوں کا خطِ تقدیر تک بھی سادہ ہے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا
ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی
سوچتا ہوں حاصل احساس کیا کیا رہ گیا
سب کی آواز میں آواز ملا رکھی تھی
حسین شام کو برباد اس طرح کرنا
گھر میں رکھا نہ کبھی قید میں ڈالا اس نے
وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
Thursday, 24 December 2015
پھر ملو گے کبھی اس بات کا وعدہ کر لو
دیوانہ ہوا بادل ساون کی گھٹا چھائی
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے
کھویا کھویا چاند کھلا آسماں
دن ڈھل جائے ہائے رات نہ جائے
موسم ہے عاشقانہ
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ
ساز آہستہ، ذرا گردشِ جام آہستہ
جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ
چاند اُترا کہ اُتر آئے ستارے دل میں
خواب میں ہونٹوں پہ آیا تِرا نام آہستہ
کُوئے جاناں میں قدم پڑتے ہیں ہلکے ہلکے
آشیانے کی طرف طائرِ بام آہستہ
اسی چمن میں چلیں جشن یاد یار کریں
اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے
تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے
تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
دھویا گیا تمام ہمارا غبار دل
ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا
جو دل اس کے کوچے سے آتا رہے گا
اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
دل تری بے قراریاں کیا تھیں
مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں
پچھلے سب خوابوں کی تعبیریں بتا دی جائیں گی
الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا
ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے
چاند تارے بھی زیر قدم آ گئے
تیرے جلوے اب مجھے ہر سو نظر آنے لگے
تم اپنے خط میں یوں لفظوں کا سلسلہ رکھنا
دل کی تباہیوں کا تجھے کیوں ملال ہے
Wednesday, 23 December 2015
چھیڑتی ہے جو یاد یار بہت
ملتے ہیں اس ادا سے گویا خفا نہیں
اپنے آپے میں نہیں شوق کے مارے گیسو
اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سو گئے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
زہر غم کر چکا تھا میرا کام
تیرے آنے کی جب خبر مہکے
وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
مانی نہ عقل کی دل ناداں کے سامنے
وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
Tuesday, 22 December 2015
شب فرقت میں یاد اس بے خبر کی بار بار آئی
چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
عشق میں جذب کیا اثر بھی نہیں
پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلاے کے رہ گئے
عاشقی کا حوصلہ بیکار ہے تیرے بغیر
تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کو بکو گئی
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی
لب فرات وہی تشنگی کا منظر ہے
آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے
درپردہ مرے قتل کی تیاری کرے ہے
آئینہ خلوص و وفا چور ہو گئے
کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
حاصل کہاں سکوں کا ہے سامان ان دنوں
Monday, 21 December 2015
وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا
کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی
من کے مندر میں ہے اداسی کیوں
بس کہ پابندی آئین وفا ہم سے ہوئی
ہنگامہ حیات سے جانبر نہ ہو سکا
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں شام کہیں
اگر تو ساتھ چل پڑتا سفر آسان ہو جاتا
دیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی
نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے
خواب اندر خواب گردش میں رہا
خواب اندر خواب گردش میں رہا
تیرا چہرہ، تیرا آب اندام جسم
عقربِ ساعت سی لرزش میں رہا
ان تہوں میں بھی رہا گستاخ دست
غوطہ زن ہوکر غمِ دوراں بہت
تیرے پرتو نے نہیں کھائی شکست
Sunday, 20 December 2015
وہ زلف دوش پہ لہرا گئی تو کیا ہو گا
جشن غم حیات منانے نہیں دیا
جو سفر اختیار کرتے ہیں
ساقیا تیرا اصرار اپنی جگہ
یہ بار فلک ہم نے زمیں پر نہیں رکھا
آج بھی ہیں میرے قدموں کے نشاں آوارہ
دل کی بارش سہی مدہم ذرا آہستہ چل
مجھ سے میرا کیا رشتہ ہے ہر ایک رشتہ بھول گیا
وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
میرے طرف سے جا کے کہو اس حبیب سوں
یو تل تجھ مکھ کے کعبہ میں مجھے اسود حجر دستا
زنخداں میں تِرے مجھ چاہِ زم زم کا اثر دستا
پریشاں سامری کا دل تِری زلفِ طلسمی میں
زمرد رنگ یو تل مجھ کوں سحرِ باختر دستا
مِرا دل چاند ہور تیری نگہ اعجاز کی اُنگلی
کہ جسکی یک اشارت میں مجھے شق القمر دستا
عاشق کے مکھ پہ نین کے پانی کوں دیکھ توں
Saturday, 19 December 2015
چوری چوری کوئی آئے چپکے چپکے
آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے
یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے
وہیں تھم کے رہ گئی ہے میری رات ڈھلتے ڈھلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا
کہ فسانہ بن گئی ہے میری بات ٹلتے ٹلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے
یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں
تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
تیری الفت میں صنم دل نے بہت درد سہے
مرحلہ دید کا تکرار تک آ پہنچا ہے
مرحلہ دِید کا تکرار تک آ پہنچا ہے
طُور سے چل کے جنوں دار تک آ پہنچا ہے
بات آ پہنچی ہے اندیشۂ رُسوائی تک
جذبۂ دل، لبِ اظہار تک آ پہنچا ہے
نام کو بھی نہیں اب دل میں کدورت کا نشاں
آئینہ عکسِ رُخِ یار تک آ پہنچا ہے
انجمن انجمن شناسائی
راز حیات شمع سے پروانہ کہہ گیا
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
Friday, 18 December 2015
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
شراب شوق سیں سرشار ہیں ہم
پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا
جسے عشق کا تیر کاری لگے
خون احساس کو موجوں کی روانی سمجھے
سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے
پتھر سلگ رہے تھے کوئی نقش پا نہ تھا
آنسوؤں کے رنگ ابھرے اور ہنسی اچھی لگی
درد کی حد سے گزرنا تو ابھی باقی ہے
درد کی حد سے گزرنا تو ابھی باقی ہے
ٹوٹ کر میرا بکھرنا تو ابھی باقی ہے
پاس آ کر میرا دکھ درد بٹانے والے
مجھ سے کترا کے گرزنا تو ابھی باقی ہے
چند شعروں میں کہاں ڈھلتی ہے احساس کی آگ
غم کا یہ رنگ نکھرنا تو ابھی باقی ہے