تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
جوانی نام ہے اک خوبصورت موت کا ساقی
بھڑک اٹھیں تو پروانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
اپنی تصویر کے پیچھے تِرا چہرا دیکھا
جس کی خوشبو سے مہک جائے شبستان وصال
دوستو تم نے کبھی وہ گل صحرا دیکھا
اجنبی بن کے ملے دل میں اترتا جائے
شہر میں کوئی بھی تجھ سا نہ شناسا دیکھا
درد کی حد سے گزرنا تو ابھی باقی ہے
ٹوٹ کر میرا بکھرنا تو ابھی باقی ہے
پاس آ کر میرا دکھ درد بٹانے والے
مجھ سے کترا کے گرزنا تو ابھی باقی ہے
چند شعروں میں کہاں ڈھلتی ہے احساس کی آگ
غم کا یہ رنگ نکھرنا تو ابھی باقی ہے