کھولو تو سہی زلف ذرا شام سے پہلے
چھا جائے گی گھنگھور گھٹا شام سے پہلے
لٹ جانا بڑی بات نہیں شہر میں تیرے
حد یہ ہے کہ ہر شخص لٹا شام سے پہلے
اک شب کے لیے اس نے کیا وصل کا اقرار
حیرت ہے کہ پھر بھول گیا شام سے پہلے
کھولو تو سہی زلف ذرا شام سے پہلے
چھا جائے گی گھنگھور گھٹا شام سے پہلے
لٹ جانا بڑی بات نہیں شہر میں تیرے
حد یہ ہے کہ ہر شخص لٹا شام سے پہلے
اک شب کے لیے اس نے کیا وصل کا اقرار
حیرت ہے کہ پھر بھول گیا شام سے پہلے
صبحِ گل رنگ کوئی شام سہانی لا دے
کوئی تو وصل کے موسم کی نشانی لا دے
اتنا بے مول نہیں ہوں کہ سہارا مانگوں
ہو جو ممکن تو مجھے میری جوانی لا دے
کتنی پژمردہ ہیں اس شہر میں دل کی فصلیں
بارشیں پیار کی لا، درد کا پانی لا دے
کیا تِرے ملنے کا امکان بھی پورا ہو گا
جو مِرے دل میں ہے ارمان بھی پورا ہو گا
جو تِرے عہدِ ستمگر میں ہوا ہے اب تک
ہم فقیروں کا وہ نقصان بھی پورا ہو گا
سجدۂ شوق بجا لانے کی توفیق تو دے
پھر تِری سمت مِرا دھیان بھی پورا ہو گا
کیا خریدو گے جو اس شہر میں ہم بیچتے ہیں
ہم غریبانِ وطن، رنج و الم بیچتے ہیں
زہر لگتے ہیں مجھے ایسے لکھاری جو یہاں
چند سکوں کے عوض اپنا قلم بیچتے ہیں
ایسے کچھ لوگ تِری دنیا میں ہیں، ربِ جہاں
اپنا ایمان و یقیں، دِین و دَھرم بیچتے ہیں
دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا تِرا
معجزہ حسنِ صوت کا، زمزمہِ صدا ترا
میرا کمال فن، تِرے حسن کلام کا غلام
بات تھی جانفزا تِری، لہجہ تھا دلربا ترا
جاں تِری سر بہ سر جمال! دل تِرا، آئینہ مثال
تجھ کو تِرے عدُو نے بھی دیکھا تو ہو گیا ترا
آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
میری پیشانی پہ اک سجدہ تو ہے لکھا ہوا
یہ نہیں معلوم ہے کس آستانے کے لیے
بہ قلب مطمئن دیکھا، بہ چشم معتبر دیکھا
نہ ہم کو دیکھ لے کوئی یہ اطمینان کر دیکھا
انہیں دیکھا، مگر پہلے ادھر دیکھا، ادھر دیکھا
ستم جھیلے، سمیٹے غم، لگا دی جان کی بازی
جو ہم سے ہو سکا راہ وفا میں ہم نے کر دیکھا
وہی ہوں جلوہ ساماں جس طرف واعظ نظر اٹھے