Thursday, 31 December 2015

تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں

تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
جوانی نام ہے اک خوبصورت موت کا ساقی
بھڑک اٹھیں تو پروانے حسیں معلوم ہوتے ہیں

کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے

کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
تِری آنکھوں سے عمرِ جاوداں تک بات پہنچی ہے
مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے
ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے

ہم سے چناں چنیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں

ہم سے چناں چنیں نہ کرو، ہم نشے میں ہیں
ہم جو کہیں نہیں نہ کرو، ہم نشے میں ہیں
نشہ کوئی ڈھکی چھپی تحریک تو نہیں
ہر چند تم یقیں نہ کرو، ہم نشے میں ہیں
ایسا نہ ہو کہ آپ کی بانہوں میں آ گریں
آنکھوں کو خشمگیں نہ کرو، ہم نشے میں ہیں

مجھ سے چناں چنیں نہ کرو میں نشے میں ہوں

مجھ سے چناں چنیں نہ کرو، میں نشے میں ہوں
میں جو کہوں، نہیں نہ کرو، میں نشے میں ہوں
انساں نشے میں ہو، تو وہ چھپتا نہیں کبھی
ہر چند تم یقیں نہ کرو، میں نشے میں ہوں
یہ وقت ہے فراخ دلی کے سلوک کا
تنگ اپنی آستیں نہ کرو، میں نشے میں ہوں

Wednesday, 30 December 2015

منہ چھپانے لگے حیا کر کے

منہ چھپانے لگے حیا کر کے 
ہوئے بے گانہ آشنا کر کے 
ایسے پھر چہچہے نہ ہوویں گے 
مجھ کو پچھتاؤ گے رہا کر کے 
لطف کیسا، وفا ہے کیا، وہ تو 
رکھتے احسان ہیں، جفا کر کے 

نیچی نظروں کے وار آنے لگے

نیچی نظروں کے وار آنے لگے
لو بس اب جان و دل ٹھکانے لگے
میری نظروں نے کیا کہا یارب
کیوں وہ شرما کے مسکرانے لگے
مصلحت ترکِ جور تھا چندے
پھر اسی ہتھکھنڈوں پہ آنے لگے

کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آ جاتا

کل نشے میں تھا وہ بت، مسجد میں گر آ جاتا
ایمان سے کہو یارو، پھر کس سے رہا جاتا
مردے کو جلا لیتے، گرتے کو اٹھا لیتے
اک دم کو جو یاں آتے تو آپ کا کیا جاتا
یہ کہیے کہ دھیان اس کو آتا ہی نہیں ورنہ
محشر سے تو سو فتنے وہ دم میں اٹھا جاتا

نہیں راز ہستی جتانے کے قابل

نہیں رازِ ہستی جتانے کے قابل
یہ پردہ نہیں ہے اُٹھانے کے قابل
طلب بوسہ کرتے ہی جھنجلا کے بولے
کہ تپو تو نہیں منہ لگانے کے قابل
کیا ضعف نے یہ نکمہ کہ اب ہم
نہ آنے کے قابل نہ جانے کے قابل

لب ترے لعل عناب ہيں دونوں

لب تِرے لعل عناب ہيں دونوں 
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئيے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہيں دونوں
ہے تکليف نقاب دے رخسار 
کيا چھپيں آفتاب ہيں دونوں

يارو مجھے معاف رکھو ميں نشے ميں ہوں

يارو مجھے معاف رکھو، ميں نشے ميں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو ميں نشے ميں ہوں
ايک ايک قرط دور میں يوں ہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پر نہ کرو، ميں نشے ميں ہوں
مستی سے درہمی ہے مِری گفتگو کے بيچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو ميں نشے ميں ہوں

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے تِرے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکین کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا
جینے جی آہ تِرے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دِيدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ايسا نہ ہوا ہو گا
ٹک گور غريباں کی کر سير کہ دنيا ميں
ان ظلم رسيدوں پر کيا کيا نہ ہوا ہو گا
ہے قاعدۂ کلی یہ کوئے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا 
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو
مجھ کو ملتا ہی نہیں‌ مہر و محبت کا نشان
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو

يہ قول کسی کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

يہ قول کسی کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا 
وہ کچھ نہيں کہتا ہے کہ ميں کچھ نہیں کہتا
سن سن کر تِرے عشق ميں اغيار کے طعنے
ميرا ہی کليجہ ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
ان کا يہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہيں سنتے 
ميرا يہی کہنا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

بات میری کبھی سنی ہی نہیں

بات میری کبھی سنی ہی نہیں
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت! تُو نے پی ہی نہیں

غضب کيا ترے وعدے کا اعتبار کيا

غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا 
تمام رات قيامت کا انتظار کيا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مِری وفا نے مجھے خوب شرمسار کيا
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل انديش 
انہوں نے وعدہ کيا، اس نے اعتبار کيا

ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مِری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور

حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولئ انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری، بندہ پرور! کب تلک
’ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے ‘کیا
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا

اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا

اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
لو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
مشغول کیا چاہیے، اس دل کو کسی طور
لے لیویں گے ڈھونڈ اور کوئی یار ہم اچھا
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینے میں لگائی
ہر طور غرض آپ سے ملنا ہے کم اچھا

سودا زدہ ہے تو یہ تدبیر کریں گے

سودا زدہ ہے تو یہ تدبیر کریں گے
اس زلفِ گِرہ گِیر کی زنجیر کریں گے
غصے میں تِرے ہم نے بڑا لطف اٹھایا
اب تو عمداً اور بھی تقصیر کریں گے
دیکھیں گے کہ جب آتے تھے آپ ایک ادا سے
ہو چیں بہ جبیں تکیہ بہ شمشیر کریں گے

کام فرمائیے کس طرح سے دانائی کو

کام فرمائیے کس طرح سے دانائی کو
لگ گئی آگ یہاں صبر و شکیبائی کو
عشق کہتا ہے یہ وحشت سے جنوں کے حق میں
چھیڑ مت بختوں جلے میرے بڑے بھائی کو
کیا خدائی ہے مُنڈانے لگے اب خط وہ لوگ
دیکھ کر ڈیوڑھی میں چھپ رہتے تھے جو نائی کو

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری! راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
خیال ان کا پرے ہے عرشِ اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ زورِ دھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

رو لیتے تھے ہنس لیتے تھے بس میں نہ تھا جب اپنا جی

رو لیتے تھے ہنس لیتے تھے بس میں نہ تھا جب اپنا جی 
تم نے ہمیں دیوانہ کہا ہے، ایسی تو کوئی بات نہ تھی   
اب یہ تمہارا کام کہ جانو، ہم پروانے تھے یا دیپ 
دن بِیتا تو جلتے جلتے، جلتے جلتے رات کٹی  
لے کے کتنے ہاتھ نہ جانے ان کے سجیلے دامن پر 
کل تک تھے ہم چاک گریباں ان سے پوچھے آج کوئی

قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں

قحطِ وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں
زوروں پہ احتیاطِ دل و جاں ہے ان دنوں
مطعون ہیں جو موسمِ گل کے جنوں میں ہیں
متروک رسمِ چاک گریباں ہے ان دنوں
یہ رسمِ رفتگاں تھی، فراموش ہو گئی
اپنے کیے پہ کون پشیماں ہے ان دنوں

تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا

تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا
اک اک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں
گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا
دیکھا تجھے تو آرزوؤں کا ہجوم تھا
پایا تجھے تو کچھ بھی نہ تھا باقی رہا ہوا

ماتھے پر ٹیکا صندل کا اب دل کے کارن رہتا ہے

ماتھے پر ٹیکا صندل کا اب دل کے کارن رہتا ہے
مندر میں مسجد بنتی ہے، مسجد میں برہمن رہتا ہے
ذرہ میں سورج اور سورج میں ذرہ روشن رہتا ہے
اب من میں ساجن رہتے ہیں، اور ساجن میں من رہتا ہے
رُت بیت چکی ہے برکھا کی اور  پریت کے مارے رہتے ہیں
روتے ہیں، رونے والوں کی آنکھوں میں ساون

کسی بھی آخری حد سے گزرنے کا تکلف کیوں

کسی بھی آخری حد سے گزرنے کا تکلف کیوں
اگر جینا ہی لازم ہے تو مرنے کا تکلف کیوں
لبا لب ہے شرابِ ناب سے میری صراحی جب
پرائی مینا سے پھر جام بھرنے کا تکلف کیوں
خبر ہے جب زمانہ رزم گہہ ہے اہلِ ہمت کی
تو ایسے میں کسی سے شکوہ کرنے کا تکلف کیوں

چلتی رہتی ہے زمیں بھی آسماں رکتا نہیں

چلتی رہتی ہے زمیں بھی آسماں رکتا نہیں
لوگ آتے جاتے ہیں، یہ کارواں رکتا نہیں 
ہے بہت ہی خوبصورت واہموں کا یہ جہاں
ہم ہی گر جاتے ہیں تھک کر یہ جہاں رکتا نہیں
اس سفر میں ہیں، پڑاؤ پر کوئی منزل نہیں
رک بھی جائیں گر مکیں تو یہ مکاں رکتا نہیں

اب تک نہاں تھے جتنے اسرار کھل رہے ہیں

اب تک نہاں تھے جتنے اسرار کھل رہے ہیں 
بیٹھے تھے جو فلک پر سرکار کھل رہے ہیں
ہے عام آدمی کے اب ہاتھ میں حقیقت
جتنے بھی دُور تھے سب دربار کھل رہے ہیں
ہم دیکھتے ہیں اب تو سچ کی برہنہ صورت
اقرار سامنے ہیں، انکار کھل رہے ہیں

اے دل والو گھر سے نکلو دیتا دعوت عام ہے چاند

اے دل والو! گھر سے نکلو، دیتا دعوتِ عام ہے چاند
شہروں شہروں، قریوں قریوں وحشت کا پیغام ہے چاند
تُو بھی ہرے دریچے والی، آ جا برسرِ بام ہے چاند
ہر کوئی جگ میں خود سا ڈھونڈے، تجھ بِن بے آرام ہے چاند
سکھیوں سے کب سکھیاں اپنے جی کے بھید چھپاتی ہیں
ہم سے نہیں تو اس سے کہہ دے، کرتا کہاں کلام ہے چاند

اے من والی بدلی کالی روپ کا رس برساتی جا

اے منوالی، بدلی کالی، روپ کا رس برساتی جا
دل والوں کی اجڑی کھیتی، سونا دھام برساتی جا
دیوانوں کا روپ نہ دھاریں، یا دھاریں، بتلاتی جا
ماریں یا ہمیں اینٹ نہ ماریں، لوگوں سے فرماتی جا
اور بہت سے رشتے تیرے، اور بہت سے تیرے نام
آج تو ایک ہمارے رشتے، محبوبہ کہلاتی جا

دوستو فرصت دلداری دنیا تھی کہاں

دوستو فرصتِ دلدارئ دنیا تھی کہاں
اپنے شعروں کےتو ممدوح تھے موزوں بدناں
یوں ملا اس کا صلہ، شانِ وفا کے شایاں
عشق مہجور و تپاں، وصل نصیبِ دِگراں
ہاں ہمیں دعویٰ زباں‌ کا ہے، مگر اس کا عنواں
اپنی دلی یہ جہاں، اپنی محبت ہے زباں

Tuesday, 29 December 2015

آخری حربہ ہمیں اب آزمانا چاہیے

آخری حربہ ہمیں اب آزمانا چاہیے
جو بچا ہے داؤ پر وہ بھی لگانا چاہیے
کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے
عمر بھر کے ضبطِ غم کو بھولنے کا وقت ہے
اب ہمیں دل کھول کر آنسو بہانا چاہیے

یوں تو اوروں کو بھی ہر ممکنہ نعمت دی ہے

یوں تو اوروں کو بھی ہر ممکنہ نعمت دی ہے
دینے والے نے مجھے کرب کی دولت دی ہے
کیا نہیں یہ بھی مشیئت کی وسیع القلبی
مجھ کو ہر غم کے برتنے کی اجازت دی ہے
زندگی کا کوئی احسان نہیں ہے مجھ پر
میں نے دنیا میں ہر اک سانس کی قیمت دی ہے

ہر روز راہ تکتی ہیں میرے سنگھار کی

ہر روز راہ تکتی ہیں میرے سنگھار کی
گھر میں کھلی ہوئی ہیں جو کلیاں انار کی
کل ان کے بھی خیال کو میں نے جھٹک دیا
حد ہو گئی ہے میرے بھی صبر و قرار کی
ماضی پہ گفتگو سے وہ گھبرا رہے تھے آج
میں نے بھی آج بات وہی بار بار کی

آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا

آئینِ وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
ہر بار مسرت کا اعادہ نہیں ہوتا
یہ کیسی صداقت ہے کہ پردوں میں چھپی ہے
اخلاص کا تو کوئی لبادہ نہیں ہوتا
جنگل ہو کہ صحرا کہیں رکنا ہی پڑے گا
اب مجھ سے سفر اور زیادہ نہیں ہوتا

دل ہے آئینہ حیرت سے دو چار آج کی رات

دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات
غمِ دوراں میں ہے عکسِ غمِ یار آج کی رات
آتشِ گل کو دامن سے ہوا دیتی ہے
دیدنی ہے روشِ موجِ بہار آج کی رات
آج کی رات کا مہماں ہے ملبوسِ حریر
اس چمن زر میں اگتے ہیں شرر آج کی رات

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
پھر ان سے عرضِ وفا کا ارادہ رکھتے ہیں
یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ
دلِ شگفتہ، جبینِ کشادہ رکھتے ہیں
خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت
صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں 

عجب نہیں جو محبت مری سرشت میں ہے

عجب نہیں جو محبت مِری سرشت میں ہے
یہی شرار نہاں روحِ سنگ و خشت میں ہے
نہ بجلیوں کو خبر ہے نہ خوشہ چیں کو پتہ
کہ اِک نہال تمنا ہماری کشت میں ہے
یہ رنگ و نور کے نغمے یہ دلکشا جلوے
صنم کدے ہیں کہ ذوقِ نظر بہشت میں ہے

آپ کا زرتار دامن کاروان رنگ ہے

آپ کا زرتار دامن کاروانِ رنگ ہے
لہریا آنچل غبارِ کہکشانِ رنگ ہے
پاؤں پر نقشِ حنا، ماتھے پہ ٹیکا صندلی
یہ زمینِ رنگ ہے، وہ آسمانِ رنگ ہے
نیلوفر نیلم ہے گویا موتیا الماس ہے
آج ہر جنسِ چمن جنسِ دکانِ رنگ ہے

دل سے ہر گزری بات گزری ہے

دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
چاندنی، نیم وا دریچہ، سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ، خوبصورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے

چہرہ اداس اداس تھا میلا لباس تھا

چہرہ اداس اداس تھا، میلا لباس تھا
کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا
عریاں، زمانہ گیر، شرر گوں جبلتیں
کچھ تھا تو ایک برگِ دل ان کا لباس تھا
اس موڑ پر ابھی جسے دیکھا ہے، کون تھا
سنبھلی ہوئی نگاہ تھی، سادہ لباس تھا

امید دید دوست کی دنیا بسا کے ہم

امیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں بجھا کے ہم
وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے
نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اٹھا کے ہم
پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چن لیا
وہ پھول، اس روش پہ، تِرے نقش پا کے ہم

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا

عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگِ جاں ہو گئیں

عشق کی ٹیسیں جو مضرابِ رگِ جاں ہو گئیں
روح کی مدہوش بیداری کا ساماں ہو گئیں
پیار کی میٹھی نظر سے تُو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں
اب لبِ رنگیں پہ نوریں مسکراہٹ، کیا کہوں
بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہو گئی

یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے

یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے
نہ اب وہ ان کی بے رخی نہ اب وہ التفات ہے
مِری تباہیوں کا بھی فسانہ کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے 
یہ کیا سکوں ہے اس سکوں میں کتنے اضطراب ہیں
یہ کس کا میرے سینے پر خنک سا ہات ہے

میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا

 میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا

اپنی تصویر کے پیچھے تِرا چہرا دیکھا

جس کی خوشبو سے مہک جائے شبستان وصال

دوستو تم نے کبھی وہ گل صحرا دیکھا

اجنبی بن کے ملے دل میں اترتا جائے

شہر میں کوئی بھی تجھ سا نہ شناسا دیکھا

یہ دنیا ہے اے قلب مضطر سنبھل جا

یہ دنیا ہے اے قلبِ مضطر سنبھل جا
یہاں ہر قدم پر ہے ٹھوکر سنبھل جا
بڑے شوق سے پی مگر پی کے مت گر
ہتھیلی پہ ہے تیری ساغر سنبھل جا 
جہاں حق کی قسمت ہے سولی کا تختہ
یہاں جھوٹ ہے زیبِ منبر سنبھل جا

Monday, 28 December 2015

عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا

عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا

دل کی دیوار و در پہ کیا دیکھا

دل کی دیوار و در پہ کیا دیکھا
بس تِرا نام ہی لکھا دیکھا
تیری آنکھوں میں ہم نے کیا دیکھا
کبھی قاتل، کبھی خدا دیکھا
اپنی صورت لگی پرائی سی
جب کبھی ہم نے آئینہ دیکھا

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

گیت

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے

 گیت

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں

محبت کا ہو گا اثر رفتہ رفتہ

محبت کا ہو گا اثر رفتہ رفتہ
نظر سے ملے گی نظر رفتہ رفتہ
شبِ غم کی طولانیوں سے نہ گھبرا
کہ اس کی بھی ہو گی سحر رفتہ رفتہ
جہاں ہم کہیں نقشِ پا چھوڑ آئے
وہیں بن گئی رہگزر رفتہ رفتہ

ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی

ہر لحظہ مکیں دل میں تِری یاد رہے گی
بستی یہ اجڑنے پہ بھی آباد یاد رہے گی
ہے ہستئ عاشق کا بس اتنا ہی افسانہ
برباد تھی، برباد ہے، برباد یاد رہے گی
ہے عشق وہ نعمت جو خریدی نہیں جاتی
یہ شے ہے خدا داد، خدا داد یاد رہے گی

ضعف آتا ہے دل کو تھام تو لو

ضعف آتا ہے، دل کو تھام تو لو
بولیو مت، مگر سلام تو لو
کون کہتا ہے بولو، مت بولو
ہاتھ سے میرے ایک جام تو لو
ہم صفیرو! چھٹو گے، مت تڑپو
دم ابھی آ کے زہرِ دام تو لو

دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا

دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا
یاں تلک روئے کہ سر دکھنے لگا
دور تھی از بس کہ راہِ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بِن اے نور بصر! دکھنے لگا

جھوٹا نکلا قرار تیرا

جھوٹا نکلا قرار تیرا ​
اب کس کو ہے اعتبار تیرا​
دل میں سو لاکھ چٹکیاں لیں​
دیکھا بس ہم نے پیار تیرا​
دم ناک میں آ رہا تھا اپنے ​
تھا رات یہ انتظار تیرا​

گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی

گالی سہی، ادا سہی، چینِ جبیں سہی
یہ سب سہی، پر ایک نہیں کی نہیں سہی
مرنا مِرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹُک
اٹکا ہے دم مِرا،۔۔ یہ دمِ واپسیں سہی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا برا ہو کچھ
میری طرف کو دیکھیے، میں نازنیں سہی

ہمیں اس صنم سے ہے الفت بہت

ہمیں اس صنم سے ہے الفت بہت
جھکے جس کے سجدے کو پتھر کے بُت
نہ لہرائے کیوں کر ہوائے جنوں
کہ ہے شورش افزا یہ ساون کی رُت
مہاراج جی! تم نے یہ سچ کہا
جنہیں درشن اِت ہیں انہیں درش اُت

وہ چپ ہو گئے مجھ سے کیا کہتے کہتے

وہ چپ ہو گئے مجھ سے کیا کہتے کہتے
کہ دل رہ گیا مدعا کہتے کہتے
مِرا عشق بھی خود غرض ہو چلا ہے
تِرے حسن کو بے وفا کہتے کہتے
شبِ غم کس آرام سے سو گئے ہیں
فسانہ تِری یاد کا کہتے کہتے

وہ ملیں آ کے ملا کوئی نہ ایسا تعویذ

وہ ملیں آ کے ملا کوئی نہ ایسا تعویذ
یوں تو ہم سے نہ بچا ایک بھی گنڈا تعویذ 
تم نے اک خط جو لکھا تھا سو پئے راحتِ جاں
ہم نے اس نقشِ محبت کا بنایا تعویذ
اضطرابِ دلِ بے تاب میں ہو گی نہ کمی
ہات آئے گا نہ جب تک کوئی ان کا تعویذ

کچھ مرے کام نہ آئے گا طبیبوں کا علاج

کچھ مِرے کام نہ آئے گا طبیبوں کا علاج
بے تِرے کس سے ہو برگشتہ نصیبوں کا علاج
کیا ہوا گر نہ کیا اس نے دلِ زار پہ رحم
کون کرتا ہے بھلا ایسے غریبوں کا علاج 
اب تمہیں آؤ تو شاید ہمیں صحت ہو نصیب
ہو چکا خوب عزیزوں کا حبیبوں کا علاج

Sunday, 27 December 2015

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے 
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مِرا جامِ سفال اچھا ہے

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہُوا کیے
دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے تِرے بِن صدا کیے 
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہنِ مے
مدت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تِری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو

بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو
تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو 
بے تاب ہوں بلا سے، کن آنکھوں سے دیکھ لیں
اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

Saturday, 26 December 2015

آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم
چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا
اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں
جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا

یہ رات رات بھی ہے اوڑھنا بچھونا بھی

یہ رات رات بھی ہے اوڑھنا بچھونا بھی
اس ایک رات میں ہے جاگنا بھی سونا بھی
وہ حبس دم ہے زمیں آسماں کی وسعت میں
کہ ایسا تنگ نہ ہو گا لحد کا کونا بھی
انہیں سوال ہی لگتا ہے میرا رونا بھی
عجب سزا ہے جہاں میں غریب ہونا بھی

غم کی بستی عجیب بستی ہے

غم کی بستی عجیب بستی ہے
موت مہنگی ہے جان سستی ہے
میں اسے کیوں ادھر ادھر ڈھونڈوں
میری ہستی ہی اس کی ہستی ہے
عالم‌ شوق ہے عجب عالم
آسماں پر زمین بستی ہے

خواب ہی میں رخ پر نور دکھائے کوئی

خواب ہی میں رخ پر نُور دکھائے کوئی
غم میں راحت کا بھی پہلو نظر آئے کوئی
سامنے اس کے دل و جان و جگر میں رکھ دوں
ہاں مگر ہاتھ میں خنجر تو اٹھائے کوئی
اپنے ہی گھر میں ملا ڈھونڈ رہے تھے جس کو
اس کے پانے کے لیے خود ہی کو پائے کوئی

میں تو اک خواب ہوں اس خواب سے تو پیار نہ کر

فلمی گیت

میں تو اک خواب ہوں اس خواب سے تُو پیار نہ کر
پیار ہو جائے تو پھر پیار کا اظہار نہ کر
میں تو اک خواب ہوں ۔۔۔۔۔

یہ ہوائیں کبھی چپ چاپ چلی جائیں گی
لوٹ کے پھر کبھی گلشن میں نہیں آئیں گی
اپنے ہاتھوں میں خوابوں کو گرفتار نہ کر
میں تو اک خواب ہوں ۔۔۔۔۔

وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں

فلمی گیت

وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں
اتنا تو بتا دے کوئی ہمیں کیا پیار اسی کو کہتے ہیں
وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں۔۔۔

چھوٹی سی بات محبت کی اور وہ بھی کہی نہیں جاتی
کچھ وہ شرمائے رہتے ہیں کچھ ہم شرمائے رہتے ہیں
وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں
اتنا تو بتا دے کوئی ہمیں کیا پیار اسی کو کہتے ہیں

عشق میں دل بن کے دیوانہ چلا

عشق میں دل بن کے دیوانہ چلا
آشنا سے ہو کے بے گانہ چلا
قلقلِ مِینا سے آتی ہے صدا
بھر چکا جس وقت پیمانہ چلا
بے زبانوں کو بھی آئی ہے زباں
بیڑی غل کرتی ہے، دیوانہ چلا

گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ

اقتباس از مثنوی سحر البیان
(دل اور دماغ)

گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ
آنکھوں کی طرح پھڑک گیا شاہ
پنجے سے پلک کے پھول اٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا

جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا

جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
شیشے کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا
نے قاصدِ خیال، نہ پیکِ نظر گیا
ان تک میں اپنی آپ ہی لے کر خبر گیا 
روح و روان و جسم کی صورت میں کیا کہوں
جھونکا ہوا کا تھا، اِدھر آیا، اُدھر گیا

ساقی قدح شراب دے دے

ساقئ قدح شراب دے دے 
مہتاب میں آفتاب دے دے
ساقی باقی جو کچھ ہے لے لے
باقی ساقی شراب دے دے
لیلیٰ میں نے تجھے بنایا
مجنوں مجھ کو خطاب دے دے

بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اس آفت جاں کو

بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اس آفتِ جاں کو 
اور دیکھنے دوں میں نہ زمیں کو، نہ زماں کو   
جب عزم کروں گھر سے کُوئے دوست کا یارو 
” دشمن ہے مِرا وہ جو کہے یہ کہ “کہاں کو  
موجب مِری رنجش کا جو پوچھے ہے تو یہ جان 
موندوں گا نہ پھر کھول کے جوں غنچہ دہاں کو

سخن عشق نہ گوش دل بیتاب میں ڈال

سخنِ عشق نہ گوشِ دلِ بے تاب میں ڈال 
مت یہ آتش کدہ اس قطرۂ سیماب میں ڈال   
گھر کا گھر بیچ، ٹکے خرچ مئے ناب میں ڈال 
زاہد! ‌اسبابِ جہاں کچھ نہیں، دے آب میں ڈال   
ابھی جھپکی ہے ٹک، اے شورِ قیامت! یہ پلک 
صبح کا وقت ہے ظالم، نہ خلل خواب میں ڈال

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی 
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی   
کیا ضد ہے مِرے ساتھ، خدا جانیے ورنہ 
کافی ہے تسلی کو مِرے ایک نظر بھی   
اے ابر! قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے 
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لختِ جگر بھی

یہ میں بھی سمجھوں ہوں یارو وہ یار یار نہیں

یہ میں بھی سمجھوں ہوں یارو وہ یار یار نہیں 
کروں میں کیا کہ مِرا دل پہ اختیار نہیں   
عبث تُو سر کی مِرے ہر گھڑی قسم مت کھا 
قسم خدا کی، تِرے دل میں اب وہ پیار نہیں   
میں ہوں وہ نخل کہ جس نخل کو قیامت تک 
بہار کیسی ہی آوے تو برگ و بار نہیں

Friday, 25 December 2015

گلشن کی فقط پھولوں سے نہیں کانٹوں سے بھی زینت ہوتی ہے

گلشن کی فقط پھولوں سے نہیں کانٹوں سے بھی زینت ہوتی ہے
جینے کے لیے اس دنیا میں غم کی بھی ضرورت ہوتی ہے
اے واعظِ ناداں! کرتا ہے تُو ایک قیامت کا چرچا
یہاں روز نگاہیں ملتی ہیں، یہاں روز قیامت ہوتی ہے 
وہ پرسشِ غم کو آئے ہیں کچھ کہہ نہ سکوں، چپ رہ نہ سکوں
خاموش رہوں تو مشکل ہے، کچھ کہہ دوں تو شکایت ہوتی ہے

میں نے جب سے تجھے اے جان غزل دیکھا ہے

میں نے جب سے تجھے اے جان غزل دیکھا ہے
مسکراتا ہوا اس دل میں کنول دیکھا ہے 

جب ملی ہے میری نظروں سے تیری شوخ نظر
تیری پلکوں کی گھنی چھاؤں میں، میں نے اکثر 
جگمگاتا ہوا اک تاج محل دیکھا ہے
میں نے جب سے تجھے اے جان غزل دیکھا ہے

یوں بیخودی سے کام لیا ہے کبھی کبھی

یوں بے خودی سے کام لیا ہے کبھی کبھی
عرشِ بریں کو تھام لیا ہے کبھی کبھی
میں نے تجھے پکار لیا ہے تو ظلم کیا
تُو نے بھی میرا نام لیا ہے کبھی کبھی
اب تک نظر میں ہیں تِری پلکیں جھکی جھکی
یوں بھی تیرا سلام لیا ہے کبھی کبھی

شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا

شبِ ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
غرض اس شب عجب ہی بے سروپائی کا عالم تھا
گریباں غنچۂ گل نے کیا گلشن میں سو ٹکڑے 
کہ ہر فندق پر اس کے طرفہ رعنائی کا عالم تھا 
نہال خشک ہوں میں اب تو یارو کیا ہوا یعنی
کبھی اس بید مجنوں پر بھی شیدائی کا عالم تھا

گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا

گر اور بھی مِری تربت پہ یار ٹھہرے گا
تو زیرِ خاک نہ یہ بے قرار ٹھہرے گا
نہ بولو کوئی مِرے جھگڑے میں، میں سمجھ لوں گا
مِرے اور اس کے جو دار و مدار ٹھہرے گا 
اگر یہ ہے تِرے دامن کی حشر و نشر میاں
زمیں پہ خاک ہمارا غبار ٹھہرے گا

شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے

شب وہ ان آنکھوں کو شغلِ اشکباری دے گئے
لے گئے خواب ان کا اور اختر شماری دے گئے
چلتے چلتے اس ادا سے وعدہ آنے کا کِیا
دے کے ہاتھ اس دل پہ اور اک زخم کاری دے گئے 
خواب و خور صبر و سکوں یکبار سب جاتا رہا
بے قرار اپنے کو کیسی بے قراری دے گئے

دل تجھ کو دیا لے مرا غمخوار یہی تھا

دل تجھ کو دیا، لے مِرا غم خوار یہی تھا 
پاس اپنے تو اے شوخ! ستم گار یہی تھا 
بے رونقئ سینہ میں اب کس کو دکھاؤں 
داغوں سے بتاں کے کبھی گلزار یہی تھا 
اب جس دل خوابیدہ کی کھلتی نہیں آنکھیں 
راتوں کو سرہانے مِرے بیدار یہی تھا 

جہاں تک ہم ان کو بھلاتے رہے ہيں

جہاں تک ہم ان کو بھلاتے رہے ہيں
وہ کچھ اور بھی ياد آتے رہے ہيں
انہيں حال دل ہم سناتے رہے ہيں
وہ خاموش زلفيں بناتے رہے ہيں 
محبت کی تاريکئ ياس ميں بھی 
چرغِ ہوس جھلملاتے رہے ہيں

بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس

بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس
کہ رہے دل نہ بے قراری دل
عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس 
وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی
کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں 
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

کس کی برق شوخی رفتار کا دلدادہ ہے

کس کی برقِ شوخئ رفتار کا دلدادہ ہے
ذرہ ذرہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے
ہے غرورِ سرکشی صورت نمائے عجز بھی
منقلب ہو کر بسانِ نقشِ پا افتادہ ہے
خانہ ویراں سازئ عشقِ جفا پیشہ نہ پوچھ
نامرادوں کا خطِ تقدیر تک بھی سادہ ہے

دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے

دیا ہے دل اگر اس کو، بشر ہے، کیا کہیے
ہوا رقیب، تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے، کیا کہیے
رہے ہے یوں گِہ و بے گِہ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے، کیا کہیے

کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے

 ”کہوں جو حال تو کہتے ہو “مدعا کہیے
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے
 ”نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ “ہم ستمگر ہیں
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو “بجا” کہیے 
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا

دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا 
میں دم بخود کھڑا ہی اسے دیکھتا رہا 
جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے ​
خاکِ چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا ​
میں پار کر چکا تھا ہزیمت کی منزلیں ​
ہر چند دشمنوں کے برابر کھڑا رہا ​

ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی

ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی 
چھاگل ہے مِری خالی سوچو ہے کہاں پانی
بارش نہ اگر کرتی دریا میں رواں پانی
بازار میں بکنے کو آ جاتا گراں پانی 
خود رو ہے اگر چشمہ آئے گا مِری جانب
میں بھی وہیں بیٹھا ہوں مرتا ہے جہاں پانی

سوچتا ہوں حاصل احساس کیا کیا رہ گیا

سوچتا ہوں حاصلِ احساس کیا کیا رہ گیا
جاں تڑپتی رہ گئی اور جسم جلتا رہ گیا
جانے والا جا چکا تھا اور میری آنکھ میں
اک ستارہ سا لرزتا، جھلملاتا رہ گیا 
میں بھی پابندِ انا تھا، وہ بھی مجبورِ خودی
میں بھی پیاسا رہ گیا اور وہ بھی پیاسا رہ گیا

سب کی آواز میں آواز ملا رکھی تھی

سب کی آواز میں آواز ملا رکھی تھی
اپنی پہچان مگر ہم نے جدا رکھی تھی
دوستوں نے سرِ بازار اچھالا اس کو
بات جو میں نے کبھی خود سے چھپا رکھی تھی 
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی تھی

حسین شام کو برباد اس طرح کرنا

حسین شام کو برباد اس طرح کرنا
کہا تھا کس نے اسے یاد اس طرح کرنا
عجیب شخص ہے ظالم ہے زود رنج بھی ہے
اسے گراں نہ ہو فریاد اس طرح کرنا 
کسی طرح کی بھی دیوار درمیاں میں نہ ہو
تمام شہر کو آباد اس طرح کرنا

گھر میں رکھا نہ کبھی قید میں ڈالا اس نے

گھر میں رکھا نہ کبھی قید میں ڈالا اس نے
دے دیا مجھ کو عجب دیس نکالا اس نے
بَیر رکھتی ہے وہ رقاصہ تماشائی سے
بے بصر کر دیا ہر دیکھنے والا اس نے
بے یقینی کا سا عالم تھا دلوں پر اس وقت
میں نے وعدہ نہ لیا اور نہ ٹالا اس نے

وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا

وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا
میری آنکھ کس نے اجاڑ دی میرا خواب کس نے چرا لیا
تجھے کیا بتائیں کہ دلنشیں تیرے عشق میں تیری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پھول سے کبھی چاند چھت پہ بلا لیا 
میری جنگ کی وہی جیت تھی ،میری فتح کا وہی جشن تھا
میں گرا تو دوڑ کے اس نے جب مجھے بازوؤں میں اٹھا لیا

سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں

سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقرِیر کرتے ہیں
بہ ہرعالم خدا کا شکر کیجے، ان کا کہنا ہے
خطا کرتے ہیں ہم جو شکوۂ تقدِیر کرتے ہیں
ہماری شاعری میں دل دھڑکتا ہے زمانے کا
وہ نالاں ہیں، ہماری لوگ کیوں توقِیر کرتے ہیں

یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں

یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
یہ زندگی نصیب ہے لوگوں کو کم یہاں
کوشش کے باوجود بھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کیے ہیں کرم یہاں
کہنے کو ہمسفر ہیں بہت اس دیار میں
چلتا نہیں ہے ساتھ کوئی دو قدم یہاں

Thursday, 24 December 2015

پھر ملو گے کبھی اس بات کا وعدہ کر لو

فلمی گیت

پھر ملو گے کبھی اس بات کا وعدہ کر لو
ہم سے اک اور ملاقات کا وعدہ کر لو

دل کی ہر بات ادھوری ہے، ادھوری ہے ابھی
اپنی اک اور ملاقات ضروری ہے ابھی
چند لمحوں کے لیے ساتھ کا وعدہ کر لو

دیوانہ ہوا بادل ساون کی گھٹا چھائی

فلمی گیت

دیوانہ ہوا بادل ساون کی گھٹا چھائی
یہ دیکھ کے دل جھوما لی پیار نے انگڑائی
دیوانہ ہوا بادل ساون کی گھٹا چھائی
یہ دیکھ کے دل جھوما لی پیار نے انگڑائی

ایسی تو میری تقدیر نہ تھی تم سا جو کوئی محبوب ملے
دل آج خوشی سے پاگل ہے، اے جانِ وفا تم خوب ملے

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

فلمی گیت

چودھویں کا چاند ہو، یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم، لاجواب ہو

زلفیں ہیں جیسے کاندھے پہ بادل جھکے ہوئے
آنکھیں ہیں جیسے مئے کے پیالے بھرے ہوئے
مستی ہے جس میں پیار کی تم ، وہ شراب ہو

آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے

فلمی گیت

آج پرانی راہوں سے، کوئی مجھے آواز نہ دے
درد میں ڈوبے گیت نہ دے، غم کا سسکتا ساز نہ دے

بیتے دنوں کی یاد تھی جن میں، میں وہ ترانے بھول چکا
آج نئی منزل ہے میری، کل کے ٹھکانے بھول چکا
نہ وہ دل نہ صنم، نہ وہ دین دھرم
اب دور ہوں سارے گناہوں سے

کھویا کھویا چاند کھلا آسماں

فلمی گیت

کھویا کھویا چاند، کھلا آسماں
آنکھوں میں ساری رات جائے گی
تم کو بھی کیسے نیند آئے گی
کھویا کھویا چاند 

مستی بھری، ہوا جو چلی
کھل کھل گئی، یہ دل کی کلی

دن ڈھل جائے ہائے رات نہ جائے

فلمی گیت

دن ڈھل جائے ہائے، رات نہ جائے
تُو تو نہ آئے تِری یاد ستائے، دن ڈھل جائے

پیار میں جن کے سب جگ چھوڑا اور ہوئے بدنام
اُن کے ہی ہاتھوں حال ہوا یہ، بیٹھے ہیں دل کو تھام
اپنے کبھی تھے، اب ہیں پرائے
دن ڈھل جائے ہائے

موسم ہے عاشقانہ

فلمی گیت

موسم ہے عاشقانہ
اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا

کہنا کہ رُت جواں ہے اور ہم ترس رہے ہیں
کالی گھٹا کے سائے بِرہن کو ڈس رہے ہیں
ڈر ہے نہ مار ڈالے، ساون کا کیا ٹھکانہ
موسم ہے عاشقانہ

کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی

فلمی گیت

کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی 

مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پا کر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہو گی
اسی نیند میں کسمسا کسمسا کر

ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ

ساز آہستہ ذرا گردشِ جام آہستہ
جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ
چاند اترا کہ اتر آئے ستارے دل میں
خواب میں ہونٹوں پہ آیا تِرا نام آہستہ 
کوئے جاناں میں قدم پڑتے ہیں ہلکے ہلکے
آشیانے کی طرف طائر بام آہستہ

اسی چمن میں چلیں جشن یاد یار کریں

اسی چمن میں چلیں، جشنِ یادِ یار کریں 
دلوں کو چاک، گریباں کو تار تار کریں   
شمیمِ پیرہنِ یار! کیا نثار کریں 
تجھی کو دل سے لگا لیں تجھی کو پیار کریں   
سناتی پھرتی ہیں آنکھیں کہانیاں کیا کیا 
اب اور کیا کہیں کس کس کو سوگوار کریں

اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے

اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے
ایک آنسو جو سرِ چشمِ وفا ہوتا ہے
اس گزرگاہ میں اس دشت میں اے جذبۂ عشق
جز تِرے کون یہاں آبلہ پا ہوتا ہے
دل کی محراب میں اک شمع جلی تھی سرِ شام
صبح دم ماتمِ اربابِ وفا ہوتا ہے

تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے

تیرے دیوانے تِری چشم و نظر سے پہلے 
دار سے گزرے تِری راہ گزر سے پہلے   
بزم ہے دور وہ گاتا رہا تنہا، تنہا 
سو گیا ساز پہ سر رکھ کے سحر سے پہلے  
اس اندھیرے میں اجالوں کا گماں تک بھی نہ تھا 
شعلہ رو، شعلہ نوا، شعلہ نظر سے پہلے   

تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا

تجھ سے گر وہ دِلا نہیں ملتا
زہر بھی تجھ کو کیا نہیں ملتا
جس کو وہ زلف مار ڈالے ہے
سرِ مو خون بہا نہیں ملتا
اور سب کچھ ملے ہے دنیا میں
لیکن اک آشنا نہیں ملتا

دھویا گیا تمام ہمارا غبار دل

دھویا گیا تمام ہمارا غبارِ دل
گریے نے دل سے خوب نکالا بخارِ دل
اتنا نہیں کوئی کہ خبر اُس کی آ کے لے
کب سے بجھا پڑا ہے چراغِ مزارِ دل
صبر و قرار کب کا ہمارا وہ لے گیا
سمجھے تھے جس کو مایۂ صبر و قرارِ دل

ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا

ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا 
گل کو شکستِ رنگ کا پیغام آ گیا 
اٹھا جو صبحِ خواب سے وہ مست پرخمار 
خورشید کف کے بیچ لیے جام آ گیا
سوچے تھا اہلِ جرم سے کس کو کروں میں قتل 
اتنے میں اس کو یاد مِرا نام آ گیا 

جو دل اس کے کوچے سے آتا رہے گا

جو دل اس کے کوچے سے آتا رہے گا 
تو البتہ وہ تلملاتا رہے گا 
نہ جاگیں گے خوابیدہ خوابِ عدم سے 
اگر ایک عالم جگاتا رہے گا 
گر اس فصل گل میں جیے گا دِوانا 
تو ہر سال دھومیں مچاتا رہے گا 

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
ٹک صفحۂ زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی طپش کا اپنے عالم ہی ٹک جدا ہے
سیماب و برق میں کب یہ بے قراریاں ہیں

دل تری بے قراریاں کیا تھیں

دل تِری بے قراریاں کیا تھیں 
رات وہ آہ و زاریاں کیا تھیں 
تیرے پہلو میں اس کی مژگاں سے 
برچھیاں یا کٹاریاں کیا تھیں 
سُرمہ دینے میں اس کی آنکھوں کو 
کیا کہوں آب داریاں کیا تھیں 

مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں

مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں
اب آگے دیکھیے کیا کیا ہم اور کھوتے ہیں
خراج دیتے چلے آئے ہیں یہ صدیوں سے
ہر ایک صبح کو معمول میں پروتے ہیں
تغیرات زمانہ سے بھاگنا کیسا
نئے سوال نئے تجربوں میں ہوتے ہیں

پچھلے سب خوابوں کی تعبیریں بتا دی جائیں گی

پچھلے سب خوابوں کی تعبیریں بتا دی جائیں گی
ایک دن آئے گا دیواریں گرا دی جائیں گی
ان حوالوں میں الجھنے سے کوئی حاصل نہیں
یہ سنا ہے داستانیں سب جلا دی جائیں گی
ہم نے کس کس کو بھلایا کون بھولا ہے ہمیں
ان سبھی قصوں کی تاویلیں بنا دی جائیں گی

الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا

الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا
تجھ سے کہاں تلک کوئی پیچھا چھڑائے گا
جتنی پناہیں ڈھونڈنا چاہے وہ ڈھونڈ لے
لوٹے گا جب بھی چھاؤں میں زلفوں کی آئے گا
کتنے ہی اہتمام سے رہ لیں مگر مزا
چولہے کے پاس بیٹھ کے کھانے میں آئے گا

ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے

ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے
تمہارے شہر میں فکر و نظر پہ پہرا ہے
سزا کے طور پہ میں دوستوں سے ملتا ہوں
اثر شکست پسندی کا مجھ پہ گہرا ہے
وہ ایک لخت خلاؤں میں گھورتے رہنا
کسی طویل مسافت کا پیش خیمہ ہے

چاند تارے بھی زیر قدم آ گئے

چاند تارے بھی زیرِ قدم آ گئے
یہ کہاں تیری چاہت میں ہم آ گئے
جب کبھی یاد ان کے ستم آ گئے
وہ تصور میں با چشمِ نم آ گئے
دفعتاً زلف رخ پر جو لہرا گئی
ایک مرکز پہ دیر و حرم آ گئے

تیرے جلوے اب مجھے ہر سو نظر آنے لگے

تیرے جلوے اب مجھے ہر سُو نظر آنے لگے
کاش یہ بھی ہو کہ مجھ میں تُو نظر آنے لگے
ابتدا یہ تھی کہ دیکھی تھی خوشی کی اک جھلک
انتہا یہ ہے کہ غم ہر سُو نظر آنے لگے
بے قراری بڑھتے بڑھتے دل کی فطرت بن گئی
شاید اب تسکین کا پہلو نظر آنے لگے

تم اپنے خط میں یوں لفظوں کا سلسلہ رکھنا

تم اپنے خط میں یوں لفظوں کا سلسلہ رکھنا 
ہر ایک لفظ کا مفہوم 'دوسرا' رکھنا
تمہارے لب کی مہک راز فاش کر دے گی 
لفافہ بند ناں کرنا، یوں ہی کھلا رکھنا
نہ اتنا ٹوٹ کے مِلیے کہ دل پہ شک گزرے 
خلوص میں بھی ضروری ہے فاصلہ رکھنا

دل کی تباہیوں کا تجھے کیوں ملال ہے

دل کی تباہیوں کا تجھے کیوں ملال ہے
جس کی یہ انجمن ہے اسے خود خیال ہے
چہرہ اداس اداس ہے، دل بھی نڈھال ہے
جو میرا حال تھا، وہی اب ان کا حال ہے
طوفاں کی زد سے بچ کے گزرنا نہیں کمال
موجوں میں غرق ہو کے ابھرنا کمال ہے

Wednesday, 23 December 2015

چھیڑتی ہے جو یاد یار بہت

چھیڑتی ہے جو یادِ یار بہت
دل شبِ غم ہے بے قرار بہت
اب نہ دیکھیں گے تیری راہ کو ہم
رہ چکے ہیں خراب و خوار بہت
ہم اسیرانِ ہجر کو نہ رلا
دیکھ اے ابرؐ نوبہار! بہت

ملتے ہیں اس ادا سے گویا خفا نہیں

ملتے ہیں اس ادا سے گویا خفا نہیں
کیا آپ کی نگاہ میں آشنا نہیں
تسکینِ ہمنشیں سے بڑھا درد اور بھی
یعنی، غمِ فراق کی کوئی دوا نہیں
شوقِ بقائے درد کی ہیں ساری خاطریں
ورنہ دعا سے اور کوئی مدعا نہیں

اپنے آپے میں نہیں شوق کے مارے گیسو

اپنے آپے میں نہیں شوق کے مارے گیسو
پھیلے جاتے ہیں رخِ یار پہ سارے گیسو
نورِ ایماں کے معاون ہیں تمہارے عارض
کفرِ عشاق کے حامی ہیں تمہارے گیسو
کام آئے گی وہ کیا ان کی پریشانی میں
چشمِ بیمار کے ڈھونڈیں نہ سہارے گیسو

اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا

اپنا تو نہیں یار میں کچھ، یار ہوں تیرا
تُو جس کی طرف ہووے، طرفدار ہوں تیرا
کُڑھنے پہ مِرے، جی نہ کُڑھا، تیری بلا سے
اپنا تو نہیں غم مجھے، غم خوار ہوں تیرا
تُو چاہے نہ چاہے، مجھے کچھ کام نہیں ہے
آزاد ہوں اس سے بھی، گرفتار ہوں تیرا

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے، جو کچھ آرزو کریں
مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمایاں
ہم آئینہ کے سامنے جب آ کے ہُو کریں
تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سو گئے

آرام سے کبھو بھی نہ یکبار سو گئے 
ایسے ہمارے طالعِ بیدار سو گئے
خوابِ عدم سے چونکے تھے ہم تیرے واسطے 
آخر کو جاگ جاگ کے ناچار سو گئے
اٹھتی نہیں ہے خانۂ زنجیر سے صدا 
دیکھو تو، کیا سبھی یہ گرفتار سو گئے   

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے
جس ليے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے يا کوئی طوفاں ہے 
ہم تو اس جينے کے ہاتھوں مر چلے
کيا ہميں کام ان گلوں سے اے صبا
ايک دم آئے اِدھر، اُودھر چلے

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلا ہوتا ہے
پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گو سمجھتا نہیں، پر حسنِ تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے سرگرمِ جفا ہوتا ہے

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا تِرا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا

شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بِسمل سے پر افشاں نکلا
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تِری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

زہر غم کر چکا تھا میرا کام

زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہے زیست حرام
بوسہ کیسا، یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذتِ دُشنام

تیرے آنے کی جب خبر مہکے

تیرے آنے کی جب خبر مہکے
تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے
شام مہکے تیرے تصور سے
شام کے بعد پھر سحر مہکے
رات بھر سوچتا رہا تجھ کو
ذہن و دل میرے رات بھر مہکے

وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک​

وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک​
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک​
بھولنا چاہا کبھی اس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بے ساختہ میں ہنس پڑا
اس نے اس درجہ رلایا دیر تک

مانی نہ عقل کی دل ناداں کے سامنے

مانی نہ عقل کی دلِ ناداں کے سامنے
اک گھر بنا لیا درِ جاناں کے سامنے
وہ صرف راہزنوں ہی پہ الزام کیوں رکھے
جو لٹ گیا ہو اپنے نگہباں کے سامنے
تُو مبتلا ہو عشق میں تو پھر پتا چلے
خوشیاں حقیر ہیں غمِ جاناں کے سامنے

وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے

وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
تعلقات تو اب بھی ہیں، رابطہ کم ہے
تم اس خموش طبیعت پہ طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
فضول تیز ہواؤں کو دوش دیتا ہے
اسے چراغ جلانے کا حوصلہ کم ہے 

Tuesday, 22 December 2015

شب فرقت میں یاد اس بے خبر کی بار بار آئی

شب فرقت میں یاد اس بے خبر کی بار بار آئی 
بھلانا ہم نے بھی چاہا، مگر بے اختیار آئی
امیدیں تجھ سے تھیں وابستہ لاکھوں آرزو لیکن
بہت ہو کر تِری درگاہ سے بے اعتبار آئی
الہی رنگ یہ کب تک رہے گا ہجرِ جاناں میں 
کہ روزِ بے دلی گزرا، تو شامِ انتظار آئی

چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک

چاہت مِری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ قدر تو کرتے مِرے اظہارِ وفا کی
شاید یہ محبت ہی نہیں آپ کے نزدیک
یوں غیر سے بے باک اشارے سرِ محفل
کیا یہ مِری ذلت ہی نہیں آپ کے نزدیک

عشق میں جذب کیا اثر بھی نہیں

عشق میں جذب کیا اثر بھی نہیں
مر مِٹے ہم انہیں خبر بھی نہیں
نہ ملے گر ملا نہ سرمۂ طور
کیا تِری خاکِ رہگزر بھی نہیں
سخت یوں ہی تھی منزلِ غمِ عشق
پھر کوئی دل کا ہمسفر بھی نہیں

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلاے کے رہ گئے

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے
مشتاقِ دید اور بھی للچا کے رہ گئے
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا مِرا خیال تو شرما کے رہ گئے
جب عاشقوں سے صدمۂ ہجراں نہ اٹھ سکا
آخر کار ایک روز وہ سَم کھا کے رہ گئے

عاشقی کا حوصلہ بیکار ہے تیرے بغیر

عاشقی کا حوصلہ بے کار ہے تیرے بغیر
آروزو کی زندگی بے کار ہے تیرے بغیر
کاروبارِ شوق کی اب وہ تن آسانی کہاں
دِل پہ ذوق شاعری اک بار ہے تیرے بغیر
شرکتِ بزمِ سخن سے بھی ہمیں باوصفِ عزم
بر بنائے بے دلی انکار ہے تیرے بغیر

تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کو بکو گئی

تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کو بکو گئی
لے، آج دردِ عشق کی بھی آبرو گئی
وہ رت جگے نہ رہے نہ وہ نیندوں کے قافلے
وہ شامِ مئے کدہ، وہ شبِ مشک بُو گئی
دنیا عجیب جگہ ہے کہیں جی بہل نہ جائے
تجھ سے بھی دور آج تِری آرزو گئی

نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے

نہیں اب کوئی خواب ایسا تِری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پہ ہم تنہا چلے آئے
ابھی تک یاد آتے ہیں کچھ ایسے اجنبی چہرے
جنہیں دیکھے کوئی تو دیکھ کر تکتا ہی رہ جائے
یہ سچ ہے ایک زہرِ غم ہی آیا اپنے حصے میں
مگر یہ زہر پی کر بھی نہ ہم جینے سے باز آئے

اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا

اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا

چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی

چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی 
یہ اور بات ہے کہ رہے ہیں اداس بھی 
ان اجنبی لبوں پہ تبسم کی اک لکیر
لگتا ہے ایسی شے تھی کبھی اپنے پاس بھی
منسوب ہوں گی اور بھی اس سے حکایتیں
یہ زخمِ دل کہ آج ہے جو بے لباس بھی

لب فرات وہی تشنگی کا منظر ہے

لبِ فرات وہی تشنگی کا منظر ہے
وہی حسین، وہی قاتلوں کا لشکر ہے
یہ کس مقام پہ لائی ہے زندگی ہم کو
ہنسی لبوں پہ ہے، سینے میں غم کا دفتر ہے
یقین کس پہ کریں، کس کو دوست ٹھہرائیں
ہر آستِین میں پوشیدہ کوئی خنجر ہے

آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے

آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے
ہم چھاؤں میں زلفوں کی آرام نہیں لیں گے
ہو دل کا لہو جس میں وہ جام نہیں لیں گے
انعام یہی ہے تو انعام نہیں لیں گے
قاتل کے گھرانے سے ان کا بھی تعلق ہے
کھل کر کبھی قاتل کا وہ نام نہیں لیں گے

درپردہ مرے قتل کی تیاری کرے ہے

درپردہ مِرے قتل کی تیاری کرے ہے
تو پیار کرے ہے کہ اداکاری کرے ہے
کہتی ہے کہ اک بت کو خدا مانیے اپنا
کیا کیا نہ ستم عشق کی بیماری کرے ہے
جو کام کسی برقِ تپاں سے نہیں ہوتا
نفرت کی وہ اک چھوٹی سی چنگاری کرے ہے

آئینہ خلوص و وفا چور ہو گئے

آئینۂ خلوص و وفا چور ہو گئے
جتنے چراغ نور تھے، بے نور ہو گئے
معلوم یہ ہوا کہہ وہ راستے کا ساتھ تھا
منزل قریب آئی تو ہم دور آ گئے
منظور کب تھی ہم کو وطن سے یہ دوریاں
حالات کی جفاؤں سے مجبور ہو گئے

کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے

کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دُنیا ہے، تِری زلفِ گرہ گیر نہیں ہے
کیوں تیری نوازش نہیں اب دیدہ و دل پر
کیا اب تِرے ترکش میں کوئی تیر نہیں ہے
ٹوکیں گے تجھے ہم تِرے اندازِ غلط پر 
مےخانہ ہے ساقی تِری جاگیر نہیں ہے

حاصل کہاں سکوں کا ہے سامان ان دنوں

حاصل کہاں سکوں کا ہے سامان ان دنوں
برپا ہے ساحلوں پہ بھی طوفان ان دنوں
کچھ عشق ہی نہیں ہے پریشان ان دنوں
خود حسن بھی ہے چاک گریبان ان دنوں
کس پر بھروسا کیجیے راہِ حیات میں
رہزن بنے ہوئے ہیں نگہبان ان دنوں

Monday, 21 December 2015

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
وہ فاصلے بھی گئے، اب وہ قربتیں بھی گئیں
دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے، نہ گریز
محبتیں تو گئی تھیں، عداوتیں بھی گئیں
لبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے
ستمگروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں

سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا

سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا
کہ باز جرمِ صداقت سے میں نہیں آیا
فصیلِ شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا
اڑا کے لائی ہے شاید خیال کی خوشبو
تمہاری سمت ضرورت سے میں نہیں آیا

کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی

کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی 
یہ بات جب کی ہے، جب چارہ گر نہ تھا کوئی 
کسی سے رنگِ افق کی ہی بات کر لیتے 
اب اس قدر بھی یہاں معتبر نہ تھا کوئی 
بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقشِ قدم 
یہ کیوں کہوں کہ مِرا ہمسفر نہ تھا کوئی 

من کے مندر میں ہے اداسی کیوں

من کے مندر میں ہے اداسی کیوں
نہیں آئی وہ دیو داسی کیوں
ابر برسا برس کے کھل بھی گیا
رہ گئی پھر زمین پیاسی کیوں
اک خوشی کا خیال آتے ہی
چھا گئی ذہن پر اداسی کیوں

بس کہ پابندی آئین وفا ہم سے ہوئی

بس کہ پابندئ آئینِ وفا ہم سے ہوئی
یہ اگر کوئی خطا ہے تو خطا ہم سے ہوئی
زندگی تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کِیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تُو بھی خفا ہم سے ہوئی
سر اٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس تِرے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی

ہنگامہ حیات سے جانبر نہ ہو سکا

ہنگامۂ حیات سے جانبر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
میرا لہو بھی پی کے نہ دنیا جواں ہوئی
قیمت مِرے جنوں کی مِرا سر نہ ہو سکا
تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی
اب کے تو میرا گھر بھی مِرا گھر نہ ہوسکا

تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے

تِری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مِرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مِری دہلیز پر اتار مجھے
ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبحِ زر نگار مجھے

لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں شام کہیں

لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں شام کہیں
دیکھیے اب ہمیں ملتا بھی ہے آرام کہیں
کہیں ایسا نہ ہو فتنہ کوئی برپا ہو جائے
اب کبھی بھول کہ لیجے نہ مِرا نام کبھی
ہم ستم خوردہ ہیں کچھ دور ہی ہٹ کر رہیے
دیکھیے آپ پہ آ جائے نہ الزام کہیں

اگر تو ساتھ چل پڑتا سفر آسان ہو جاتا

اگر تو ساتھ چل پڑتا، سفر آسان ہو جاتا
خوشی سے عمر بھر جینے کا اک سامان ہو جاتا
نہ جا کر کیوں جتاتا ہے، جو جانا تھا چلا جاتا
بہت ہوتا تو یہ ہوتا، کہ میں حیران ہو جاتا
جو میری سمت تُو دو گام بھی ہنس کر چلا آتا
میں تیرے اور تُو میرے لیے ایمان ہو جاتا 

دیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی

دِیے کی لَو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی
کہ دن کی قدر کا باعث ہے ہر گھڑی شب کی
جو دلخراش ہیں کچھ لمحے دن کے لمحوں میں
تو دلفروز بھی ہیں ساعتیں کئی شب کی
کہاں کے خواب میرے اور کہاں کی تعبیریں
مجھے تو سونے نہ دے اب سحر گری شب کی

نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے

نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے
وہ دورِ عشق تھا کہ بڑے معرکے ہوئے
اتنا تو تھا کہ وہ بھی مسافر نواز تھے
مجنوں کے ساتھ تھے جو بگولے لگے ہوئے
آئی ہے اس سے پچھلے پہر گفتگو کی یاد
وہ خلوتِ وصال، وہ پردے چھَٹے ہوئے

خواب اندر خواب گردش میں رہا

شاخِ مرجاں

خواب اندر خواب گردش میں رہا
تیرا چہرہ، تیرا آب اندام جسم
عقربِ ساعت سی لرزش میں رہا
ان تہوں میں بھی رہا گستاخ دست
غوطہ زن ہوکر غمِ دوراں بہت
تیرے پرتو نے نہیں کھائی شکست

Sunday, 20 December 2015

وہ زلف دوش پہ لہرا گئی تو کیا ہو گا

وہ زلف دوش پہ لہرا گئی تو کیا ہو گا
میری نگاہ کو نیند آ گئی تو کیا ہو گا
تِری نظر کے سہارے پہ جی رہا ہوں میں
تِری نظر بھی جو کترا گئی تو کیا ہو گا
بہ نازِ حسن میری سمت دیکھنے والے
نظر نظر سے جو ٹکرا گئی تو کیا ہو گا

جشن غم حیات منانے نہیں دیا

جشنِ غمِ حیات منانے نہیں دیا 
اس مفلسی نے زہر بھی کھانے نہیں دیا
ہم نے جو سادہ لوحی میں کھایا کوئی فریب
پھر وہ فریب اوروں کو کھانے نہیں دیا
آندھی نے روشنی کی حمایت تو کی بہت
لیکن کوئی چراغ جلانے نہیں دیا 

جو سفر اختیار کرتے ہیں

جو سفر اختیار کرتے ہیں
وہ ہی دریا کو پار کرتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ خود مسافر کا
راستے انتظار کرتے ہیں
ان سے بچھڑے تو پھر ہُوا محسوس
وہ ہمیں کتنا پیار کرتے ہیں

ساقیا تیرا اصرار اپنی جگہ

ساقیا تیرا اصرار اپنی جگہ
تیرے میکش کا انکار اپنی جگہ
تیغ اپنی جگہ، دار اپنی جگہ
اور حقیقت کا اظہار اپنی جگہ
اب کھنڈر ہے کھنڈر ہی کہو دوستو
شیش محلوں کے آثار اپنی جگہ

یہ بار فلک ہم نے زمیں پر نہیں رکھا

یہ بارِ فلک ہم نے زمیں پر نہیں رکھا
تھک کر کسی کاندھے پہ کبھی سر نہیں رکھا
اس نے نے بھی ہواؤں کے ابھی رخ نہیں بدلے
میں نے بھی چراغوں کو بجھا کر نہیں رکھا
میں نے بھی اسے خار سے تشبیہ نہیں دی
اس نے بھی میرا نام گلِ تر نہیں رکھا

آج بھی ہیں میرے قدموں کے نشاں آوارہ

آج بھی ہیں میرے قدموں کے نشاں آوارہ
تیری گلیوں میں بھٹکتے تھے جہاں آوارہ
تجھ سے کیا بچھڑے تو یہ ہو گئی اپنی حالت
جیسے ہو جائے ہواؤں میں دھواں آوارہ
میرے شعروں کی تھی پہچان اسی کے دم سے
اس کو کھو کر ہوئے بے نام و نشاں آوارہ

دل کی بارش سہی مدہم ذرا آہستہ چل

دل کی بارش سہی مدہم، ذرا آہستہ چل
دل کی مٹی ہے ابھی تک نم، ذرا آہستہ چل
تیرے ملنے اور پھر تِرے بچھڑ جانے کے بیچ 
فاصلہ رسوائی کا ہے کم، ذرا آہستہ چل
اپنے دل ہی میں ہی نہیں ہے اس کی محرومی کی یاد 
اس کی آنکھوں میں بھی ہے شبنم، ذرا آہستہ چل

مجھ سے میرا کیا رشتہ ہے ہر ایک رشتہ بھول گیا

مجھ سے میرا کیا رشتہ ہے ہر ایک رشتہ بھول گیا 
اتنے آئینے دیکھے ہیں، اپنا چہرہ بھول گیا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ‌ہے فرق تھا کتنا دونوں میں
اس کی باتیں یاد نہیں اور اس کا لہجہ بھول گیا
پیاسی دھرتی کے ہونٹوں پہ میرا نام نہیں تو کیا 
میں وہ بادل کا ٹکڑا ہوں، جس کو دریا بھول گیا

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اس نے دیکھا مجھے، اس نے چاہا مجھے، اس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے
کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آ گیا، ذہن میں اس کے جو میرا نام آ گیا
بعد مدت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے
زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے

میرے طرف سے جا کے کہو اس حبیب سوں

میرے طرف سے جا کے کہو اس حبیب سوں
گر مجھ کوں چاہتا ہے تو مت مل رقیب سوں
مت خوف کر توں مجھ سوں اے دلدارِ مہرباں
آزار نئیں ہے گل کوں کبھی عندلیب سوں
مت راہ دے رقیبِ سیہ رو کوں اے صنم
واجب ہے احتراز بلائے مہیب سوں

یو تل تجھ مکھ کے کعبہ میں مجھے اسود حجر دستا

یو تِل تجھ مکھ کے کعبہ میں مجھے اسود حجر دِستا
زنخداں میں تِرے مجھ چاہِ زم زم کا اثر دستا
پریشاں سامری کا دل تِری زلفِ طلسمی میں
زمرد رنگ یو تل مجھ کوں سحرِ باختر دستا
مِرا دل چاند ہور تیری نگہ اعجاز کی اُنگلی
کہ جسکی یک اشارت میں مجھے شق القمر دستا

عاشق کے مکھ پہ نین کے پانی کوں دیکھ توں

عاشق کے مکھ پہ نیَن کے پانی کوں دیکھ توں
اس آر سی میں رازِ نہانی کوں دیکھ توں
سن بے قرار دل کی اول آہِ شعلہ خیز
تب اس حرف میں دل کی معانی کوں دیکھ توں
خوبی سوں تجھ حضورِ شمع دم زنی میں ہے
اس بے حیا کی چربِ زبانی کوں دیکھ توں

Saturday, 19 December 2015

چوری چوری کوئی آئے چپکے چپکے

گیت

چوری چوری کوئی آئے چپکے چپکے
سب سے چھپ کے خواب کئی دے جائے

آنکھیں ڈالے آنکھوں میں، جانے مجھ سے کیا وہ پوچھے 
میں جو بولوں، بولوں کیا، ہنس دوں مجھ کو کچھ نہ سوجھے 
ایسے تاکے، دل میں جھانکے، سانس میری رک جائے 
چوری چوری کوئی آئے

آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے

گیت

آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے
دل سے قدموں کی آواز آتی رہی
آہٹوں سے اندھیرے چمکتے رہے
رات آتی رہی، رات جاتی رہی

گنگناتی رہیں میری تنہائیاں
دور بجتی رہیں کتنی شہنائیاں
زندگی زندگی کو بلاتی رہی

یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے

گیت

یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے
وہیں تھم کے رہ گئی ہے میری رات ڈھلتے ڈھلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا


جو کہی گئی نہ مجھ سے وہ زمانہ کہہ رہا ہے
کہ فسانہ بن گئی ہے میری بات ٹلتے ٹلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے

یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں

فلمی گیت

یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں 
میرے کام کی نہیں

کس کو سناؤں حال دلِ ‌بے قرار کا
بجھتا ہوا چراغ ہوں اپنے مزار کا
اے کاش بھول جاؤں مگر بھولتا نہیں 

تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا

گیت

تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا
ایک بھٹکے ہوئے راہی کو کارواں مل گیا
تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا

بیٹھو نہ دور ہم سے، دیکھو خفا نہ ہو
قسمت سے مل گئے ہو، مل کے جدا نہ ہو

جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں

گیت

جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں 
راکھ کے ڈھیر میں، شعلہ ہے نہ چنگاری ہے 

اب نہ وہ پیار، نہ اس پیار کی یادیں باقی 
آگ یوں دل میں لگی کچھ نہ رہا، کچھ نہ بچا 
جس کی تصویر نگاہوں‌ میں لیے بیٹھی ہو 

تیری الفت میں صنم دل نے بہت درد سہے

فلمی گیت

تیری الفت میں صنم، دل نے بہت درد سہے 
غم ہمیں لوٹ گیا، ہائے دل ٹوٹ گیا
پھر بھی آنسو نہ بہے اور ہم چپ ہی رہے

ہم نے ملتے ہی نظر، دل دیا نذرانہ تجھے 
پیار سے پیار بھرا، کہہ دیا افسانہ تجھے 

مرحلہ دید کا تکرار تک آ پہنچا ہے

مرحلہ دید کا تکرار تک آ پہنچا ہے
طور سے چل کے جنوں دار تک آ پہنچا ہے
بات آ پہنچی ہے اندیشۂ رسوائی تک
جذبۂ دل لب اظہار تک آ پہنچا ہے
شعلۂ عشق جو روشن ہے مِرے سینے میں
رنگ بن کر تِرے رخسار تک آ پہنچا ہے

انجمن انجمن شناسائی

گیت

انجمن انجمن شناسائی
دل کا پھر بھی نصیب تنہائی 
خشک آنکھوں سے عمر بھر روئے 
ہو نہ جائے کسی کی رسوائی 
جب کبھی تم کو بھولنا چاہا 
انتقاماً تمہاری یاد آئی

راز حیات شمع سے پروانہ کہہ گیا

رازِ حیات شمع سے پروانہ کہہ گیا
فرزانگی کی بات تھی دیوانہ کہہ گیا
پوچھا تھا آپ نے مِرا افسانۂ حیات
میں بے خودی میں آپ کا افسانہ کہہ گیا
جو بات عشق کہہ نہ سکا کھل کے دار پر
اک رِندِ بے نوا سرِ مے خانہ کہہ گیا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل بھی گئی جس سے ہُوا ہے قتل مِرا 
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا 

Friday, 18 December 2015

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم

شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا

شب غمِ فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
دم رکے تھا سینے میں کمبخت جی گھبرائے تھا
یا تو دم دیتا تھا وہ، یا نامہ بر بہکائے تھا
تھے غلط پیغام سارے، کون یاں تک آئے تھا
بل بے عیاری عدو کے آگے وہ پیماں شِکن
وعدۂ وصل آج پھر کرتا تھا اور شرمائے تھا

دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ

دل بستگی سی ہے کسی زلفِ دوتا کے ساتھ
پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ
کب تک نبھائیے بتِ نا آشنا کے ساتھ
کیجیے وفا کہاں تلک اس بے وفا کے ساتھ
یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گُل کھلائے
آئی چمن سے نکہتِ گل جب صبا کے ساتھ

ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا

ہم جان فدا کرتے، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا وہ آتے تو کیا ہوتا
اس حسن پہ خلوت میں جو حال کیا کم تھا
کیا جانیے کیا کرتا گر تُو مِری جا ہوتا
ایک ایک ادا سو سو دیتی ہے جواب اس کے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

شراب شوق سیں سرشار ہیں ہم

شرابِ شوق سیں سرشار ہیں ہم
کبھو بے خود کبھو ہوشیار ہیں ہم
دو رنگی سوں تِری اے سروِ رعنا
کبھو راضی، کبھو بیزار ہیں ہم
تِرے تسخیر کرنے میں سری جن
کبھو ناداں، کبھو عیار ہیں ہم

پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا

پھر میری خبر لینے وو صیاد نہ آیا
شاید کہ مِرا حال اسے یاد نہ آیا
مدت سے مشتاق ہیں عشاق جفا کے
بے داد کہ وو ظالمِ بے داد نہ آیا
جاری کیا ہوں جوئے رواں اشکِ رواں سوں
افسوس کہ وہ غیرتِ شمشاد نہ آیا

جسے عشق کا تیر کاری لگے

جسے عشق کا تیر کاری لگے
اُسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دمِ مرگ لگ
جسے یار جانی سوں یاری لگے
نہ ہوئے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے

خون احساس کو موجوں کی روانی سمجھے

خون احساس کو موجوں کی روانی سمجھے 
اشک گل رنگ تھے وہ ہم جنہیں پانی سمجھے
کون کرتا ہے خرابوں میں دفینوں کی تلاش
کس کو فرصت ہے جو زخموں کے معانی سمجھے
کیسے مِٹ جاتی ہے آنکھوں سے وفا کی تحریر
آج اڑتے ہوئے رنگوں کی زبانی سمجھے

سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے

سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے
تِِرے بدن کا فسوں بھی شراب جیسا ہے
ہنسے وہ لاکھ مگر ضبطِ غم کی تحریریں
نہ چھپ سکیں گی کہ چہرہ کتاب جیسا ہے
ملے گا پاس سے کبھی بھی نہ خاک و خوں کے سوا
پلٹ چلیں کہ یہ منظر سراب جیسا ہے

پتھر سلگ رہے تھے کوئی نقش پا نہ تھا

پتھر سلگ رہے تھے کوئی نقش پا نہ تھا
ہم اس طرف چلے تھے جدھر راستہ نہ تھا
پرچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نہ پوچھ
اپنا شریکِ غم کوئی اپنے سوا نہ تھا
یوں دیکھتی ہے گمشدہ لمحوں کے موڑ سے
اس زندگی سے جیسے کوئی واسطہ نہ تھا

آنسوؤں کے رنگ ابھرے اور ہنسی اچھی لگی

آنسوؤں کے رنگ ابھرے اور ہنسی اچھی لگی
مل گئے جب تم تو اپنی زندگی اچھی لگی
اپنی نظروں میں خود اپنے غم کی قیمت بڑھ گئی
آج مجھ کو اس کی آنکھوں میں نمی اچھی لگی
آج پہلی بار اس نے گنگنائے میرے شعر
آج پہلی بار اپنی شاعری اچھی لگی

درد کی حد سے گزرنا تو ابھی باقی ہے

 درد کی حد سے گزرنا تو ابھی باقی ہے

ٹوٹ کر میرا بکھرنا تو ابھی باقی ہے

پاس آ کر میرا دکھ درد بٹانے والے

مجھ سے کترا کے گرزنا تو ابھی باقی ہے

چند شعروں میں کہاں ڈھلتی ہے احساس کی آگ

غم کا یہ رنگ نکھرنا تو ابھی باقی ہے

گھر چھوڑ کے بھی زندگی حیرانیوں میں ہے

گھر چھوڑ کے بھی زندگی حیرانیوں میں ہے
شہروں کا شور دشت کی ویرانیوں میں ہے
ڈرتا ہوں یہ بھی وقت کے ہاتھوں سے مِٹ نہ جائے
ہلکی سی جو چمک ابھی پیشانیوں میں ہے
کتنا کہا تھا اس سے کہ دامن سمیٹ لے
اب وہ بھی میرے ساتھ پریشانیوں میں ہے

حشر جیسی وہ گھڑی ہوتی ہے

حشر جیسی وہ گھڑی ہوتی ہے
دل پہ افتاد پڑی ہوتی ہے
سرد آہوں کی جھڑی ہوتی ہے
گرم اشکوں کی لڑی ہوتی ہے
سوچ رستوں میں گڑی ہوتی ہے
ہجر کی رات کا عالم توبہ
ہجر کی رات کڑی ہوتی ہے

جب میری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا

گیت

جب میری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا
تم کو جب نیند نہ آئے تو مجھے خط لکھنا

نیلے پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں ہنستا ساون
پیاسی دھرتی میں سمانے کو ترستا ساون
رات بھر چھت پہ لگاتار برستا ساون
دل میں جب آگ لگائے تو مجھے خط لکھنا

مجبوری کے موسم میں بھی جینا پڑتا ہے

گیت

مجبوری کے موسم میں بھی جینا پڑتا ہے
تھوڑا سا سمجھوتہ جانم کرنا پڑتا ہے

کبھی کبھی کچھ اِس حد تک بڑھ جاتی ہے لاچاری
لگتا ہے یہ جیون جیسے بوجھ ہو کوئی بھاری
دِل کہتا ہے روئیں، لیکن ہنسنا پڑتا ہے

مرا قلم مرے جذبات مانگنے والے

مِرا قلم، مِرے جذبات مانگنے والے
مجھے نہ مانگ ، مِرا ہاتھ مانگنے والے
یہ لوگ کیسے اچانک امیر بن بیٹھے
یہ سب تھے بھیک مِرے ساتھ مانگنے والے
اٹھا سکے گا نہ سینے پہ یہ سیاہ پہاڑ
کچھ اور مانگ مِری رات مانگنے والے

دن کو بھی اتنا اندھیرا ہے میرے کمرے میں

دن کو بھی اتنا اندھیرا ہے مِرے کمرے میں
سایہ آتے ہوئے ڈرتا ہے مِرے کمرے میں
غم تھکا ہارا مسافر ہے چلا جائے گا
کچھ دنوں کے لیے ٹهہرا ہے مِرے کمرے میں
صبح تک دیکھنا افسانہ بنا ڈالے گا
تجھ کو ایک شخص نے دیکھا ہے مِرے کمرے میں

ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی
ملا کے نظروں کو والہانہ حیا سے پھر
جھکا لے کوئی نظر تو سمجھو غزل ہوئی
اِدھر مچل کر انہیں پکارے جنوں میرا
دھڑک اٹھے دل اُدھر تو سمجھو غزل ہوئی

دھوپ ہے کیا اور سایہ کیا ہے اب معلوم ہوا

دھوپ ہے کیا اور سایہ کیا ہے اب معلوم ہوا
یہ سب کھیل تماشا کیا ہے، اب معلوم ہوا
ہنستے پھول کا چہرہ دیکھوں اور بھر آئے آنکھ 
اپنے ساتھ یہ قصہ کیا ہے، اب معلوم ہوا
ہم برسوں کے بعد بھی ان کو اب تک بھول نہ پائے
دل سے ان کا رشتہ کیا ہے، اب معلوم ہوا 

Thursday, 17 December 2015

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا

مار ہی ڈال مجھے چشم ادا سے پہلے

مار ہی ڈال مجھے چشمِ ادا سے پہلے 
اپنی منزل کو پہنچ جاؤں قضا سے پہلے
اک نظر دیکھ لوں، آ جاؤ قضا سے پہلے 
تم سے ملنے کی تمنا ہے خدا سے پہلے 
حشر کے روز میں پوچھوں گا خدا سے پہلے 
تُو نے روکا نہیں کیوں مجھ کو خطا سے پہلے