Thursday, 31 July 2025

بحمداللہ کہ عالم میں وہ نورالعالمیں آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بحمداللہ کہ عالم میں وہ نورالعالمیں آئے

ضیائے مُرسلیں آئے، بنائے صادقیں آئے

فروغ نُور حق محبوبِ رب العالمیں آئے

وہ نور اولیں کا آخری نُورِ مبیں آئے

شہ اُمی لقب بن کے رسول فاضلیں آئے

وہ علمناہ من اللدنا کے عین الیقیں آئے

جہان رنگ و بُو کی جان رُوح العالمیں آئے

کس کا گلستاں کیسا نشیمن

 برق مخالف تاک میں دشمن

کس کا گلستاں، کیسا نشیمن

ان کی جوانی ایک قیامت

طالبِ دل، ایمان کی دشمن

ان کا تصور اللہ اللہ

دل کی دنیا روشن روشن

پیاس پی جائے بھوک کھائے مجھے

 پیاس پی جائے بھوک کھائے مجھے

کیا ہوا ہے یہ ہائے ہائے مجھے

سب خدا کے لئے خموش رہو

کیا کروں میں کوئی بتائے مجھے

جو مجھے یاد ہے بھلا دوں گا

میں جسے یاد ہوں بھلائے مجھے

خود کو روک اس گلی میں جانے سے

 خود کو روک اس گلی میں جانے سے

باز آ آبرو گنوانے سے

عام ہونے لگی ہوس کاری

پیار اٹھنے لگا زمانے سے

آسماں کا نہیں بگڑنا کچھ

چند تاروں کے ٹوٹ جانے سے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا معاملہ دل کا

 سمجھ میں کچھ نہیں آتا معاملہ دل کا

حضور آئیں تو ہو جائے فیصلہ دل کا

تڑپ جو بڑھ گئی معشوقوں نے جگر تھامے

اثر دکھایا تو ہونے لگا گلہ دل کا

یہ ان سے کہتا ہے ہنس ہنس کے ان کا دیوانہ

دکھاؤں گا تمہیں اک روز حوصلہ دل کا

غاصبوں اور تخت والوں کے خدا کا سلسلہ

 غاصبوں اور تخت والوں کے خدا کا سلسلہ

💢چل پڑا بار دگر کرب و بلا کا سلسلہ

ٹوٹ جاتا ہے کبھی دل تو کہیں رشتہ کوئی

زہر قاتل ہے محبت میں انا کا سلسلہ

اب تلک جاری ہے لاشوں پر سیاست ملک میں

دیکھیے رکتا ہے کب آہ و بکا کا سلسلہ

Wednesday, 30 July 2025

لڑے تھے تین سو تیرہ بھلا کیسے ہزاروں سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ نکلے تھے مثال طوفاں تپتے ریگزاروں سے

چمکتی جن کی پیشانی تھی گردوں کے ستاروں سے

لیے قرآن کا نسخہ سجا کر اپنے سینوں میں

نکل آئے وہ طفل وقت آگے شہسواروں سے

ابھی تک ابن آدم ہاں اسی حیرت میں کھویا ہے

لڑے تھے تین سو تیرہ بھلا کیسے ہزاروں سے

اے مطرب رنجور ترا ساز کہاں ہے

 اے مطرب رنجور ترا ساز کہاں ہے

انساں کو جگا دے جو وہ آواز کہاں ہے

بے حکم ترے ہِلتا نہیں پتا شجر کا

شاہین میں خود طاقتِ پرواز کہاں ہے

اے چرخ! پتہ دے مجھے اس آہِ رسا کا

وہ نالۂ دل کی مِرے آواز کہاں ہے

زوال کے ہمرکاب ہم کہاں جا رہے ہیں

 ہم کہاں جا رہے ہیں


ہم کہاں جا رہے ہیں

ہر شے دھواں دھواں

ہر دن زوال کی مٹھی میں

روح کے لبادے تار تار

اس منزل پر

اپنے اختیارات بھی نکل گئے

بیتابیٔ دل شوق کا اظہار نہ کر دے

 بیتابیٔ دل شوق کا اظہار نہ کر دے

اس شوخ کو الفت سے خبردار نہ کر دے

گر یہ ہی فراوانیاں ہیں درد و الم کی

یہ عشق کہیں جینے سے بیزار نہ کر دے

ہے ان کو شفا پُرسش در پردہ سے منظور

ڈر ہے یہ مجھے اور بھی بیمار نہ کر دے

تھرتھراتا ہے رکی موجوں کا شیشہ آنکھ پر

 تھرتھراتا ہے رکی موجوں کا شیشہ آنکھ پر

پڑ رہا ہے ڈوبتے منظر کا سایہ آنکھ پر

ڈھونڈتا رہ جائے گا اڑتا پتنگا روشنی

رفتہ رفتہ آ گرے گا ایک پتہ آنکھ پر

بادلوں کا رقص تھا نزدیک کے اک گاؤں میں

رک گیا تھا آن کر سیلابِ گریہ آنکھ پر

خیال یار ہے اک ہم ہیں اور وحشت ہے

 خیالِ یار ہے اک ہم ہیں اور وحشت ہے

عجیب حال ہے اپنا عجب طبیعت ہے

نہیں ہے فائدہ کچھ بھی یہاں جہاں والو

یہ راہِ عشق ہے اس میں فقط اذیت ہے

اٹھا کے سر نہیں چل سکتے کوئے جاناں میں

یہ کیسا ظلم ہے اور کیسی بربریت ہے

Tuesday, 29 July 2025

میرے نبی سوہنے سوہنا مکھڑا دکھا دینا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میرے نبیؐ سوہنے سوہنا مکھڑا دکھا دینا

جب وقت نزع آئے مجھے کلمہ پڑھا دینا

مر رہا ہوں تڑپ کے تیری جدائی میں دلربا

بے قرار نگاہوں کو اب دیدار کرا دینا

جب جاتے ہیں لوگ مدینے میں دل روتا ہے میرا

مجھ کو بھی بلا کے محبوبا دربار دکھا دینا

ایک ملاقات صاف و سنجیدہ سنگ بنیاد زیست کہلائی

 سنگ بنیاد 


کتنی بے نور تھی حیات میری

راہ کا تھا پتہ نہ منزل کا

پھر بھی

اک اجنبی سا خوف دل میں لئے

میں نے تم کو شریک غم مانا

اور شریک حیات بھی جانا

دشت میں قیس نما خاک اڑاتا ہے کوئی

 دشت میں قیس نما خاک اڑاتا ہے کوئی

یعنی برسوں سے چلی ریت نبھاتا ہے کوئی

مرے اندر کا سخن فہم سلامت ہے ابھی

خواب میں میرؔ کا اک شعر سناتا ہے کوئی

پھول گلدان میں رکھتے ہیں سبھی میزوں پر

نام کاغذ پہ ترا لکھ کے سجاتا ہے کوئی

کیسے چھپاتا زخموں کو حاضرین سے

 کیسے چھپاتا زخموں کو حاضرین سے

قطرہ ٹپک رہا تھا خود آستین سے

کچھ امتیاز دوری کا اب نہ رہ گیا

تصویر کھینچ لیتے ہیں دُوربین سے

اک روز غرق کر دے گا کائنات کو

دریا اُبل رہا ہے شاخِ یقین سے

جسے تیرے ہجراں میں جہاں تلخ

 جسے تیرے ہجراں میں جہاں تلخ

اسے ہے اے بتِ شیریں یو جاں تلخ

جہاں کیوں خوش لگے عاشق کو بے یار

کہ ہے بلبل کو بے گل گلستاں تلخ

کروں کیوں میں بیانِ تلخِ ہجراں

کہ جس کی یاد سوں ہوئی زباں تلخ

چلتے ہوئے اک روز ٹھہر جائیں گے ہم بھی

 چلتے ہوئے اک روز ٹھہر جائیں گے ہم بھی

دریا ہیں سمندر میں اتر جائیں گے ہم بھی

اب بیٹھ کے زخموں سے لہو پونچھ رہا ہے

پہلے تو وہ سمجھا تھا کہ ڈر جائیں گے ہم بھی

یہ کیا کہ ہر الزام ہمارے ہی سر آئے

آئینہ بنو تم تو سنور جائیں گے ہم بھی

Monday, 28 July 2025

ہے گنبد خضرا کی جھلک اور طرح کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر آنکھ میں پیدا ہے چمک اور طرح کی

ہے گنبد خضراء کی جھلک اور طرح کی

ہر آن خیالوں میں ہے اس شہر کی ٹھنڈک

چلتی ہے جہاں بادِ خنک، اور طرح کی

جھونکا کوئی گزرا ہے مدینے کی ہوا کا

اطراف میں ہے آج مہک، اور طرح کی

بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

 بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

اک خلائے بے کراں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

کیا بشر کا حال ہو جاتا ہے ان کے درمیاں

اس زمین و آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

رہبروں کی بھیڑ میں کچھ راہزن بھی ہیں شریک

اب تو میر کارواں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

تلقین جو ہو سکے تو مسکراؤ

 تلقین


خزاں رسیدہ پتے بھی

کبھی بہار کے سفیر بن کر

ہمارے جسم کی بگیا کو مہکاتے تھے

ہماری روحوں میں اتر جاتے تھے

انہیں دیکھ کر نہ آنسو بہاؤ

جو ہو سکے تو مسکراؤ

جنون شوق کی دار و رسن کی بات چلی

جنون شوق کی دار و رسن کی بات چلی

ہمارے بعد ہمارے چلن کی بات چلی

غم حیات نے سب کچھ بھلا دیا تھا مگر

تڑپ اٹھے جو تری انجمن کی بات چلی

بیان موسم گل،۔ داستان رقص بہار

بہ طرز نو اسی گل پیرہن کی بات چلی

دریدہ دل کسی دیوار سے نکلے ہوئے ہیں

 دریدہ دل کسی دیوار سے نکلے ہوئے ہیں

پرانے لوگ ہیں اور غار سے نکلے ہوئے ہیں

تمہاری جستجو میں خود فریبی اوڑھ کر ہم

سبھی کچھ چھوڑ کے گھر بار سے نکلے ہوئے ہیں

اور اب تم کو کسی دن آزمائیں گے، بتا دیں

ہیں شہزادے مگر دربار سے نکلے ہوئے ہیں

انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے

 انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے

لگتا ہے کہ منظور خدا اور ہی کچھ ہے

شاید ابھی تشخیص مرض ہو نہیں پائی

بیماری ہے کچھ اور دوا اور ہی کچھ ہے

سب پیار کی تشہیر کیا کرتے ہیں لیکن

ماحول ہے کچھ اور فضا اور ہی کچھ ہے

Sunday, 27 July 2025

بشارت دی تھی جن کی ہر نبی نے وہ نبی آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بشارت دی تھی جن کی ہر نبی نے وہ نبی آئے

پیامِ کبریا لے کر رسولِ ہاشمیﷺ آئے

ہمارا ہی نہیں بلکہ خدا کا بھی وہ پیارا ہے

نہ کیوں رحمت درودوں کے حوالے سے چلی آئے

الٰہی بخش دینا مجھ کو نعمتوں کے وسیلے سے

جو میرے نامۂ اعمال میں کوئی کمی آئے

نہ یہ سمجھنا اداسی ہی اپنے گھر ہو گی

 نہ یہ سمجھنا اداسی ہی اپنے گھر ہو گی

یقین کیجے کبھی تو نئی سحر ہو گی

بہت قدیم مرا زندگی سے رشتہ ہے

کسے خبر تھی مری چاہ در بدر ہو گی

اسی سبب نہ کبھی رک سکا سفر میرا

تری توجہ کبھی میری راہ بر ہو گی

خدا ہونا بی مشکل ہے بندہ ہونا بی مشکل ہے

 خدا ہونا بھی مشکل ہے بندہ ہونا بھی مشکل ہے

سمجھتا ہے یو نکتے کوں جو عارف صاحب دل ہے

خدا ہے مصدر مطلق بندا بی اس سوں ہے مشتق

جدھر دیکھے ادھر ہے حق ولے پندار حائل ہے

خدا معبود ہے مطلق بندا موجود ہے مطلق

یو دونوں مطلق برحق سمجھ ہر یک کا مشکل ہے

پردیس میں گھر اپنا بسایا نہیں جاتا

 اب خون جگر اور بہایا نہیں جاتا

بھیگی ہوئی آنکھوں کو سکھایا نہیں جاتا

نکلے جو وطن سے تو بھٹکتے ہی رہے ہم

پردیس میں گھر اپنا بسایا نہیں جاتا

ہے آگ مِرے دل میں محبت کی فروزاں

بھڑکے ہوئے شعلے کو بُجھایا نہیں جاتا

جو میں نے ڈاکٹر سے جا کے پوچھا

 طویل عمر کی دوا


جو میں نے ڈاکٹر سے جا کے پوچھا

طویل عمری کا بھی ہے کوئی نسخہ

تو بولا ڈاکٹر؛ اچھا بتاؤ

ذرا کچھ اپنے بارے میں سناؤ

ہے کچھ پینے پلانے کا تمہیں ذوق

ہے کچھ آوارہ گردی کرنے کا شوق

گر نہ ہوتے آپ ہوتا قصۂ آدم نہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


گر نہ ہوتے آپﷺ ہوتا قصۂ آدم نہیں

چاند تارے کوہ دریا اور ہوتے ہم نہیں

میری نس نس میں سمایا مصطفیٰؐ کا عشق ہے

وہ خیالوں میں بسے ہیں یہ سعادت کم نہیں

کس ڈگر پر لے چلا ہے کھینچ کر یہ شوقِ دید

خار بے معنی نظر میں آبلوں کا غم نہیں

Saturday, 26 July 2025

احتساب چلو اپنا احتساب کر لیں

 احتساب


تنہائی میں اکثر سوچا کرتی ہوں

موت کیا اور حیات کیا ہے

حاصل اور لا حاصل کے کیا معنی

زندگی کے سفر میں

چلتے چلتے ایک دن

موت سے ٹکرائیں گے

یہاں قائم کروں گا جب وجود اپنا

 یہاں قائم کروں گا جب وجود اپنا

بچائیں گے کئی صاحب وجود اپنا

امیرِ شہر کی تقریر ہونی ہے

بچھا کے بیٹھ جائیں سب وجود اپنا

فنا کر دےگا سب کچھ ایک ہی پل میں

فقط باقی رکھے گا رب وجود اپنا

کم نگاہی ہور تغافل مت کر اے ماہ تمام

کم نگاہی ہور تغافل مت کر اے ماہ تمام

مک ترا کرتا ہے غمزہ کام عاشق کا تمام

خنجر بسمل سوں دل کوں نیم بسمل جب کیا

یک نگاہ لطف سوں کر پختہ اس کا کار خام

سر بسر کا یاں جہاں کے عاشقاں کوں پوچھ ہیں

عشق بازی کے بغیر از کر نکوں تو اور کام

تری تلاش سے مجھ کو کبھی مفر نہ ملے

 تری تلاش سے مجھ کو کبھی مفر نہ ملے

میں چاہتا ہوں مجھے تیرا سنگ در نہ ملے

نفس نفس تو ملے وہ نظر نظر نہ ملے

وہ عمر بھر بھی ملے اور عمر بھر نہ ملے

رلائے جا غم فرقت بہ شان خودداری

وہ حال پوچھنے آئیں تو آنکھ تر نہ ملے

خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے

 خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے 

میں بند ہوں کمرے میں بکھر جانے کے ڈر سے 

یہ لوگ مجھے خون کا تاجر نہ سمجھ لیں 

میں تیغ لیے پھرتا ہوں سر جانے کے ڈر سے 

ہر سائے پہ آہٹ پہ نظر رکھتا ہوں شب بھر 

بستر پہ نہیں جاتا ہوں ڈر جانے کے ڈر سے 

بہت کٹھن ہے جیون یارو آؤ چلیں میخانے کو

بہت کٹھن ہے جیون یارو آؤ چلیں مے خانے کو

اس کے روپ سے جگ کی رونق پیار کریں پیمانے کو

بادل پھر آکاش پہ چھائے چاروں اور اندھیرا ہے

ایسے میں وہ دلبر آئے آس کی جوت جگانے کو

جوگی کس کے میت ہوئے ہیں، راہی سے مت پیار کرو

ندی چلی ہے بہتے بہتے ساگر میں گر جانے کو

Friday, 25 July 2025

سر اپنا تیرے حضور میں نے جھکا دیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سر اپنا تیرے حضور میں نے جھکا دیا

پھر مقدر میرا سرکارﷺ نے جگا دیا

کیف و مستی کے عالم میں سب کچھ بھلا دیا

اے نگاہ یار تُو نے کیسا جام پلا دیا

نبی پاکﷺ کی یاد میں کتنا لطف آیا

غم خانۂ زندگی کو باغِ فردوس بنا دیا

رشتہ یہ ہمارا صدیوں پرانا

 رشتہ


ایک سایہ سا

جو سائے کی طرح

ہر پل میرے ساتھ رہتا ہے

اور

دو خوبصورت آنکھیں

ہمیشہ میرا تعاقب کرتی ہیں

ایک پُر کشش آواز

دشت میں خاک اڑانے کی خبر ملتی ہے

 گنبدِ ظلم گرانے کی خبر ملتی ہے

خاتم وقت کے آنے کی خبر ملتی ہے

وہ ہنر ہاتھ میں آیا مجھے گھر میں بیٹھے

بند آنکھوں سے زمانے کی خبر ملتی ہے

قیس لکھتا ہے مِرے نام پہ نامے تو مجھے

دشت میں خاک اڑانے کی خبر ملتی ہے

یہ جسم کا ہے نگر بے صدا کی بستی ہے

 یہ جسم کا ہے نگر بے صدا کی بستی ہے

قدم قدم پہ یہاں اک بلا کی بستی ہے

بس ایک دھوپ ہی چبھتی ہے سر سے تلووں تک

پتہ چلا کہ خطِ استوا کی بستی ہے

ہر ایک شخص ہے تنہائیاں لپیٹے ہوئے

اداس نسل کی صورت خدا کی بستی ہے

اپنے جیسے دیوانوں کی تھوڑی تو امداد کروں

 اپنے جیسے دیوانوں کی تھوڑی تو امداد کروں

سوچ رہا ہوں ہشیاری سے پاگل پن ایجاد کروں

ضرب لگا کر ایسا چیخوں سناٹے بھی ڈر جائیں

لیکن پہلے آوازیں تو پنجرے سے آزاد کروں

پتھر کھانے سے اچھا ہے پتھر کو ہی توڑا جائے

عشق اجازت دے تو خود کو مجنوں سے فرہاد کروں

مولوی جنت میں پہونچے تو عجب تھے سلسلے

 مولوی جنت میں


مولوی جنت میں پہونچے تو عجب تھے سلسلے

ناشتے میں صبح کو بس چائے اور پاپے ملے

جھانک کر دیکھا جہنم میں تو یہ آیا نظر

دیگیں ہی دیگیں کھنکتی تھیں جدھر دیکھو ادھر

طیش میں آکر فرشتوں سے کیا تب یوں خطاب

زندگی بھر کی ریاضت کا صلہ یہ ہے جناب

Thursday, 24 July 2025

چلو تشنہ لبو جاری ہیں میخانے محمد کے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چلو تشنہ لبو جاری ہیں مے خانے محمدﷺ کے

چھلکتے ہیں مئے عرفاں سے پیمانے محمدﷺ کے

انہیں بخشا ہے تاج رحمت اللعالمیںﷺ حق نے

کرم سب پر ہیں اپنے ہوں کہ بیگانے محمدﷺ کے

علاجِ ذہن و جسم و روح ہوتا ہے، ادھر آؤ

زمانے سے نرالے ہیں شفا خانے محمدﷺ کے

ہماری ذات کی تعمیر ہونے والی ہے

 ہماری ذات کی تعمیر ہونے والی ہے

ہمارے قتل کی تفسیر ہونے والی ہے

بچھا کے بیٹھا ہے ہر آدمی وجود اپنا

امیر شہر کی تقریر ہونے والی ہے

دیا جلانے کا فرمان آ گیا پھر سے

پھر ایک رات کی تنویر ہونے والی ہے

خوش قداں میں تو جب امام ہوا

 خوش قداں میں تو جب امام ہوا

سرو سرکش ترا غلام ہوا

فوقیت ماہِ نو نے دی تجھ کوں

مدعا دل کا اب تمام ہوا

مذہبِ عشق میں مجھے سونا

روپ درسن بِنا حرام ہوا

عدو کی یار کی ایسی کی تیسی

 عدو کی یار کی ایسی کی تیسی

گلوں کی خار کی ایسی کی تیسی

پلا دے ساقیا مے آج پھر سے

اس استغفار کی ایسی کی تیسی

مرا دل اس طرف مائل نہیں ہے

لب و رخسار کی ایسی کی تیسی

یہ دل سے میرے شوق سفر کیوں نہیں جاتا

 یہ دل سے میرے شوق سفر کیوں نہیں جاتا

میں گھر سے نکل جاؤں تو گھر کیوں نہیں جاتا

جب مجھ کو یہ لگتا ہے میری روح میں تُو ہے

پھر تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر کیوں نہیں جاتا

جب چھوڑ کے جاتا ہوں تِرے شہر کی گلیاں

حیرت مجھے ہوتی ہے کہ مر کیوں نہیں جاتا

کبھی جگر کبھی تیرِ نظر کو دیکھتے ہیں

 کبھی جگر کبھی تیرِ نظر کو دیکھتے ہیں

ہم ان کے رخ پہ وفا کے اثر کو دیکھتے ہیں

محبتوں کی حدوں سے جنہیں گزرنا ہے

کہاں وہ آن کھ میں دنیا کے ڈر کو دیکھتے ہیں

پتا بتائیں گے منزل کا ان کے نقشِ قدم

یوں ہی نہ غور سے ہم رہگزر کو دیکھتے ہیں

Wednesday, 23 July 2025

آمد خیر الوریٰ کا جس گھڑی چرچا ہوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آمدِ خیر الوریٰﷺ کا جس گھڑی چرچا ہوا 

گونج اک چاروں طرف تھی مرحبا صل علی

جھک گئے افلاک سارے آپﷺ کی تعظیم کو

اور زمیں ہونے لگی تھی آسمانوں سے سوا

دھوم کعبے کی فضا میں سرور کونینﷺ کی

سرسراہٹ تھی ملائک کے پروں کی جا بجا

ہم ہیں حدود عشق کے بے تاج بادشاہ

 ہم ہیں حدودِ عشق کے بے تاج بادشاہ

وہ اور ہوں گے سر پھرے بے تاج بادشاہ

لو جا کے تاجدار سے سفاکیت کا درس

کرتے نہیں ہیں معرکے بے تاج بادشاہ

علم و ہنر کے دیپ جلا کر یہ جا بجا

اک روز خود ہی بجھ گئے بے تاج بادشاہ

جب بھی ساغر لہو کے اچھالے گئے

 جب بھی ساغر لہو کے اچھالے گئے

کر کے رنگیں زمیں کو جیالے گئے

غم یہ ان کے نہ ہم سے سنبھالے گئے

کر کے سب کچھ انہیں کے حوالے گئے

رخ جوانی میں دیتا ہے یونہی تپک

چاند ڈوبا تو سمجھو یہ ہالے گئے

تری نیرنگیوں کا رنگ دل بسمل سے ملتا ہے

 تری نیرنگیوں کا رنگ دل بسمل سے ملتا ہے

تُو ہے ہر رنگ میں مولا، تُو ہر دل سے ملتا ہے

تری شمشیر کے صدقے مٹائی بے کلی دل کی

ہوا رازِ نہاں ظاہر کہ دل کب دل سے ملتا ہے

وصالِ یار جیتے جی نہ ہوتا ہے، نہ ہوئے گا

بشر پاتا ہے وہ اس کو جو پہلے گِل سے ملتا ہے

زاہد تری بہشت کو ٹھکرا گیا ہوں میں

 زاہد تری بہشت کو ٹھکرا گیا ہوں میں

دیر و حرم سے میکدے تک آ گیا ہوں میں

جھانکا جو اپنے آئینۂ روح میں کبھی

اپنا ہی عکس دیکھ کے شرما گیا ہوں میں

جب بھی پڑا ہے معرکہ لے کے خدا کا نام

طوفانِ حادثات سے ٹکرا گیا ہوں میں

صداقت کی یہاں گرتی ہوئی دیوار دیکھی ہے

صداقت کی یہاں گرتی ہوئی دیوار دیکھی ہے

ستم کی جیت دیکھی ہے کرم کی ہار دیکھی ہے

غریبوں کی ہی کشتی کو ہمیشہ ڈوبتے دیکھا

امیر شہر کی کشتی ہمیشہ پار دیکھی ہے

امیر شہر ان آنکھوں میں کتنا محترم ہے تو

جن آنکھوں نے تری ذلت سر بازار دیکھی ہے

Tuesday, 22 July 2025

آئے جب بھی نزع کا ہنگام رسول عربی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آئے جب بھی نزع کا ہنگام رسول عربیﷺ

آپ کا لب پہ رہے نام رسول عربیﷺ

کتنا خوش بخت ہے وہ آپ کا دامن جس نے

اپنے ہاتھوں سے لیا تھام رسول عربیﷺ

اک جھلک صبحِ مدینہ کی وہاں کافی ہے

زندگی کی ہو جہاں شام رسول عربیﷺ

بے فیض نہیں وقت کے بہتے ہوئے دھارے

 بے فیض نہیں وقت کے بہتے ہوئے دھارے

شاید ملیں کچھ لوگ ہمیں جان سے پیارے

اک بوند بھی اب چشمِ عنایت کی بہت ہے

پیاسے ہیں بہت گرمئ حالات کے مارے

جو فصلِ بہاراں کے لیے زینتِ دل تھے

آنکھوں میں پھرا کرتے ہیں اکثر وہ نظارے

کوئی منصب نہ خزانہ نہ جزا چاہتی ہے

 کوئی منصب نہ خزانہ نہ جزا چاہتی ہے

یہ محبت تو فقط اُس کی رضا چاہتی ہے

کچھ سروکار نہیں اس سے کہ کب کون مرا

"روز اِک تازہ خبر خلقِ خدا چاہتی ہے”

لاکھ بے درد بنی پھرتی ہو دنیا یہ مگر

مجھ سے ہر حال میں پھر بھی یہ وفا چاہتی ہے

حضور ایسے نہ کیجیے کوئی مر گیا تو

حضور ایسے نہ کیجیے کوئی مر گیا تو

بلا کا یہ وقت تم پہ آ کے ٹھہر گیا تو

یہ فکر مجھ کو نہیں کہ خورشید منہ کو آوے

یہ فکر مجھ کو کہ تیرے دل میں اتر گیا تو

میں ترک مے تو کیے ہوئے ہوں پہ سوچتا ہوں

کہ پیر مے میرے سامنے سے گزر گیا تو

ہوائے تند کے جھونکے کو آزماؤں گا

 ہوائے تند کے جھونکے کو آزماؤں گا

میں اک دیے سے ہزاروں دیے جلاؤں گا

میں شہر شہر صدا پر صدا اٹھاؤں گا

گلیم پوش غزل ہوں غزل سناؤں گا

یہ قسط قسط تبسم سلگتے ہونٹوں پر

سجا کے اب کے بھی میں قتل گاہ جاؤں گا

عشق کے اپنے ضابطے ہیں میاں

 عشق کے اپنے ضابطے ہیں میاں

اپنے بھی ان سے رابطے ہیں میاں

ہم اکیلے نہیں زمانے میں

ساتھ کتنے ہی قافلے ہیں میاں

چھاؤں لے کر قریب آ جاؤ

ہم کڑی دھوپ میں کھڑے ہیں میاں

Monday, 21 July 2025

نعت پاک مصطفیٰ شاعری کی جان ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نعتِ پاکِ مصطفیٰؐ شاعری کی جان ہے

صاف لفظوں میں کہوں یہ مرا ایمان ہے

دوسری کوئی نظر تاب لا سکتی نہیں

رب کا جلوہ دیکھنا مصطفیٰؐ کی شان ہے

مصطفیٰ کی شان میں جو بھی گستاخی کرے

اس کے نطفے میں ضرور اصل کا فقدان ہے

جواب ان کی جفاؤں کا یوں دیا جائے

 جواب ان کی جفاؤں کا یوں دیا جائے

دلوں سے نقش وفا ہی مِٹا دیا جائے

سرشک خون جگر زہر یا شراب اے دوست

بتا یہ تو کہ تِرے غم میں کیا پیا جائے

جو کوئی چاک گریباں کہیں ملے یارو

تو اپنے تار گریباں سے وہ سِیا جائے

مت بولیے یہاں نہ کسی شخص کی چلے

 مت بولیے یہاں نہ کسی شخص کی چلے

ان کی یہ انجمن ہے یہاں ان کی ہی چلے

اک عمر کٹ گئی ہے اسی انتظار میں

آئیں وہ لوٹ کر تو رکی زندگی چلے

دھوکا، دغا، فریب ہے فطرت میں یار کی

اب کیسے آگے سلسلۂ دوستی چلے

چاہتا ہوں کہ تیرا ہجر مصیبت نہ لگے

چاہتا ہوں کہ تیرا ہجر مصیبت نہ لگے

اب کوئی زخم ترے غم کی بدولت نہ لگے

اس کی یادوں کا سفر ختم کروں روئے بغیر

غیر ممکن ہے کہ اس کام میں حکمت نہ لگے

ظرف ٹوٹے ہوئے کشکول سے گر سکتا ہے

ایسی امداد سے بچنا جو سخاوت نہ لگے

دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے

دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے

زباں پہ دعویٔ الفت ہے کیا کیا جائے

ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں

ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جائے

نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ

اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جائے

گلشن گلشن خاک اڑی اور ویرانوں میں پھول کھلے

 گلشن گلشن خاک اڑی اور ویرانوں میں پھول کھلے

اب کے برس یوں موسم بدلا زندانوں میں پھول کھلے

خوشبو رت نے جاتے جاتے دل پر ایسی دستک دی

بھولی بسری یادیں جاگیں گل دانوں میں پھول کھلے

جوئے لہو آنکھوں سے پھوٹی کشت وفا سیراب ہوئی

خون گلو جب دشت پہ چمکا افسانوں میں پھول کھلے

Sunday, 20 July 2025

سلام اس پر کہ جس نے گمرہوں کی رہنمائی کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت 


سلام اس پر کہ جس نے گمرہوں کی رہنمائی کی

سلام اس پر کہ جس نے ڈوبتوں کی ناخدائی کی

سلام اس پر جو وجہِ افتخارِ ہر دو عالم ہے

سلام اس پر خدا کے بعد جو سب سے معظم ہے

سلام اس پر خطا کاروں پر جس نے رحم فرمایا

سلام اس پر بدی کا جس نے نیکی سے دیا بدلا

اب کہاں ملتے ہیں بے وجہ رلانے والے

 اب کہاں ملتے ہیں بے وجہ رُلانے والے

ہر نئی رُت میں نیا شہر بسانے والے

میں تو بیٹھی ہوں ہتھیلی پہ لیے دل اپنا

راہ دشوار سہی،۔ آئیں گے آنے والے

جانے کب ہو گی ملاقات دوبارہ اپنی

اک نظر دیکھ تو لے چھوڑ کے جانے والے

ٹوٹے سپنوں کو تم کیسے جوڑو گے

 ٹوٹے سپنوں کو تم کیسے جوڑو گے

وقت کا دھارا تنہا کیسے موڑو گے

چھوڑ گئے جو تنہا تم کو ساتھی سب

ان کی یادوں کو تم کیسے چھوڑو گے

اشک نہ ہوں گے تو جم جائیں گی آہیں

شام کی خاموشی کو کیسے توڑو گے

بھرے زخم پھر تازہ دم دیکھتے ہیں

 بھرے زخم پھر تازہ دم دیکھتے ہیں

عجب دوستوں کے کرم دیکھتے ہیں

کوئی لشکر فاتحیں جا رہا ہے

فضاؤں میں اونچے علم دیکھتے ہیں

خیال صنم بھی جمال صنم ہے

اب اس طور روئے صنم دیکھتے ہیں

مصیبتوں میں یہ جیون دکھائی دیتا ہے

 مصیبتوں میں یہ جیون دکھائی دیتا ہے

یہ راہبر مجھے رہزن دکھائی دیتا ہے

نہ جانے کیوں تمہیں سجن دکھائی دیتا ہے

یہ سادھو بھیس میں راون دکھائی دیتا ہے

کہاں کسی کو یہ نر دھن دکھائی دیتا ہے

ہر ایک شخص کو بس دھن دکھائی دیتا ہے

شمع غم ہجر کی راتوں میں جلاتا کیوں ہے

 شمع غم ہجر کی راتوں میں جلاتا کیوں ہے

اور جلاتا ہے تو پھر اس کو بجھاتا کیوں ہے

خون میں ڈوبی ہوئی تصویر کہاں تک دیکھوں

روز تُو شہر کی رُوداد سناتا کیوں ہے

جب انہیں تیرے ہی ہاتھوں سے اجڑنا ہے تو پھر

بستیاں اپنے علاقوں میں بساتا کیوں ہے

Saturday, 19 July 2025

کھینچتا ہے دل کو پھر شوق گلستان رسول

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کھینچتا ہے دل کو پھر شوق گلستان رسول

بار بار آتا ہے لب پہ نام ایوانِ رسولﷺ

دیکھ کر پھولوں کی مستی وجد لاتے جائیے

سیر ہو کر کیجیے سیرِ گلستانِ رسولﷺ

بیقرارئ دروں میں کاش رخنے ڈال دیں

سینۂ و دل کو نوازیں آ کے مژگانِ رسول

وہ موسم بے خودی کے تھے جو موسم ہم گزار آئے

 وہ موسم بیخودی کے تھے جو موسم ہم گزار آئے

کہ جب چاہا تمہارے نام سے خود کو پکار آئے

سفر کی سب اذیت منتظر آنکھیں اگر لے لیں

پروں میں طاقت پرواز پھر بے اختیار آئے

میں تشنہ لب زمینوں پر کہاں تک چشم تر رکھتی

سفر میں زندگی کے ہر قدم پر ریگزار آئے

اداس دھوپ سے رشتہ بحال کرنے میں

 اداس دھوپ سے رشتہ بحال کرنے میں

درخت سوکھ گئے یہ کمال کرنے میں

ہر ایک بار غموں کا مزاج بدلا تھا

خوشی سے آنکھ ملا کر ملال کرنے میں

ہمارا دل بھی رہا ذمے دار مان لیا

تمہیں کیوں وقت لگا استعمال کرنے میں

جنون عشق جسے سر پھرا بنا دے گا

 جنونِ عشق جسے سر پھرا بنا دے گا

پہاڑ کاٹ کے وہ راستہ بنا دے گا

خمارِ حسن سلامت رکھے خدا اس کا

جہاں وہ چاہے وہاں میکدہ بنا دے گا

اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں سبھی کے دل

وہ جس کو چاہے اسے پارسا بنا دے گا

فکر دوراں میں نہ ہستی کو مٹاتے یارو

 فکر دوراں میں نہ ہستی کو مٹاتے یارو

بزم دنیا میں مزے کچھ تو اٹھاتے یارو

مشکلیں ایسی نہیں تھیں کہ نہ آ سکتے تم

وعدہ آنے کا کیا تھا تو نبھاتے یارو

کار دنیا سے یہ مانا کہ پریشاں ہو بہت

ہم سے ملنے کے بہانے بھی بناتے یارو

وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک

 وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک

لیا جائے گا آخر کار ہم سے امتحاں کب تک

اٹھا کرتا رہے گا یوں نشیمن سے دھواں کب تک

ہمارے آشیانوں پر گریں گی بجلیاں کب تک

نہ سمجھاؤ ہمیں منشور اپنے، بس یہ بتلا دو

ہمیں بھر پیٹ مل پائیں گی آخر روٹیاں کب تک

Friday, 18 July 2025

اپنے لب پر درودیں سجاتے چلو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اپنے لب پر درودیں سجاتے چلو

جشنِ میلادِ آقاﷺ مناتے چلو

روزہ ہر پیر کو مصطفیٰؐ نے رکھا

تم بھی سنت پہ خود کو چلاتے چلو

اپنے دل میں بسا کر نبیؐ کی وفا

امتی خاص ان کا بناتے چلو

ساتھ خوشیوں کے غم بھی پالا ہے

 ساتھ خوشیوں کے غم بھی پالا ہے

میرے جینے کا ڈھب نرالا ہے

میرے حالات بھی ہیں پیچیدہ

میں نے بھی راستہ نکالا ہے

وہ سنائیں گے میرا سب قصہ

میں نے جن آنسوؤں کو پالا ہے

ٹھوکریں ہی لگائے جاتا ہے

 ٹھوکریں ہی لگائے جاتا ہے

وقت ہم کو بہائے جاتا ہے

ایک دیوانہ روئے جاتا ہے

ایک دیوانہ گائے جاتا ہے

وقت ظالم ہے اپنے ہاتھوں سے

زہر غم کا پلائے جاتا ہے

ذوق تلاش یار کہاں سے کہاں ہے آج

 ذوقِ تلاشِ یار کہاں سے کہاں ہے آج

اب میری گردِ راہِ سفر کہکشاں ہے آج

صدیوں سے ظلمتوں کا زمانے پہ راج ہے

اے آفتاب صبح! تِری ضو کہاں ہے آج

جن منزلوں کی گرد فرشتے نہ چھُو سکے

ان منزلوں کے پاس مِرا کارواں ہے آج

لفظوں کے ہیر پھیر کی ناؤ میں آ گیا

 لفظوں کے ہیر پھیر کی ناؤ میں آ گیا

میں جل پری کے جال کے داؤ میں آ گیا

تجھ سے نظر ہٹانے کو کیا کیا نہیں کیا

پھر بھی چراغ تل کے الاؤ میں آ گیا

یہ گاؤں کی زندگی کی حسیں تر نظیر تھا

بس پھر بنانے والے کے بھاؤ میں آ گیا

غموں کے بار بہت کوئی غمگسار نہیں

 غموں کے بار بہت کوئی غمگسار نہیں

چراغِ زیست پہ اب کوئی اعتبار نہیں

غموں نے اب ہمیں تنہائیوں میں گھیر لیا

خزاں کی رُت ہے میرے دل میں اب بہار نہیں

اگر میں چاہوں بھی تو ترک عشق کیسے کروں

کہ اپنے دل پہ بھی اب مجھ کو اختیار نہیں

Thursday, 17 July 2025

طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے

 طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے

دل کے بہلانے کو یادوں کی مسیحائی ہے

دل ہے لبریز شکایت سے مگر کیا کیجے

پائے آداب میں زنجیر شکیبائی ہے

ان کے وعدہ پہ ذرا میں جو یقیں کرنے لگا

بولے گھبرا کے قسم ہم نے نہیں کھائی ہے

نعت چلتا رہتا ہوں تخیل میں مدینے کی طرف

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شعر زینہ ہیں مرا عرش کے سینے کی طرف

چلتا رہتا ہوں تخیل میں مدینےﷺ کی طرف

نعت کے پردے میں ہم شہرِ نبیﷺ گھومتے ہیں

کبھی آنگن کی طرف، اور کبھی زینے کی طرف

پہلے پہلے اسے مرنا بھی نہیں آتا تھا

آپﷺ انسان کو لے آئے ہیں جینے کی طرف

پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس

 پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس

پلکوں کو ہم نے دیکھا ہے اشکوں کے آس پاس

بجھتی نہیں ہے اوس سے شاید گلوں کی پیاس

آنسو ہی کچھ بکھیر دوں شبنم کے آس پاس

خوش کس طرح سے رہتے ہیں ویراں گھروں میں لوگ

اپنا تو ہو گیا ہے بھرے گھر میں جی اداس

بے تیشہ ہے اور کوہ ندا کاٹ رہا ہے

 بے تیشہ ہے اور کوہِ ندا کاٹ رہا ہے

یوں اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے

پانی پہ بناتا ہے وہ لاٹھی سے لکیریں

خنجر سے ہر اک سمت ہوا کاٹ رہا ہے

حاسد ہے وہ اتنا کہ مِری راہگزر پر

پھیلی ہوئی ہر شاخِ دعا کاٹ رہا ہے

در آئی مرے بھاگوں میں رسوائی وغیرہ

 در آئی مِرے بھاگوں میں رُسوائی وغیرہ

لمحہ نہ ہوئی اپنی پزیرائی وغیرہ

آنکھوں نے تِرے بعد نہ دیکھا کوئی منظر

جاتی رہی پیچھے تِرے بینائی وغیرہ

روئیں گے مِرے بعد مجھے پیڑ پرندے

مت سمجھو ستم میرے علاقائی وغیرہ

چڑیوں سے مہکتا رہے دالان ہمارا

 اسباب یہی ہے، یہی سامان ہمارا

چڑیوں سے مہکتا رہے دالان ہمارا

ہر شخص کو خوشحالی کی دیتے ہیں دعائیں

ہر شخص ہی کر جاتا ہے نقصان ہمارا

ہر شخص ہی کیوں اس کو مٹانے پہ تلا ہے

دیواروں پہ لکھا ہوا پیمان ہمارا

انہیں زمینی خداؤں کے زیر دست ہوں میں

 انہیں زمینی خداؤں کے زیر دست ہوں میں

میں جانتا ہی نہیں تھا کہ کتنا پست ہوں میں

پئے شراب بھلا شیخ سے الجھنا کیا

خدا پرست ہے وہ اور بتاں پرست ہوں میں

کسی کی مست نگاہوں سے مست رہتا ہوں

زمانہ مجھ کو سمجھتا ہے بادہ مست ہوں میں

غیر سے رسم و راہ کیوں میں نے سنا دیا کہ یوں

 غیر سے رسم و راہ کیوں میں نے سنا دیا کہ یوں

اس نے پکڑ کے ہاتھ سے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

مجھ کو نکما کہہ دیا میں نے کہا بھلا یہ کیوں

آئنہ لے کے ہاتھ میں اس نے دکھا دیا کہ یوں

مردہ دلوں میں زندگی آتی ہے کیسے عود کر

رخ سے نقاب زلف کو اس نے ہٹا دیا کہ یوں

Wednesday, 16 July 2025

مری نگاہ میں مکہ ہے اور مدینہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مری نگاہ میں مکہ ہے اور مدینہ ہے

یہی متاعِ جہاں ہے مرا خزینہ ہے

وہ مہرباں ہو تو آفات سے نجات ملے

نبیؐ کا جود و کرم نوحؑ لا سفینہ ہے

قلم میں لکنتیں اوراق داغ داغ مرے

لبوں پہ اسم محمدﷺ کا اک نگینہ ہے

اگر چاہوں جھٹک کر توڑ دوں زنجیر تنہائی

 اگر چاہوں جھٹک کر توڑ دوں زنجیرِ تنہائی

میں تنکا ہوں مگر موجوں سے ہے میری شناسائی

شریکِ راہ تھی جب تک ہماری آبلہ پائی

نہ ماتھے پر شکن ابھری نہ پاؤں میں تھکن آئی

ہوا سے صبحِ نا آسودگی! اچھا کیا تُو نے

کتابِ زندگی کے کچھ ورق تُو بھی اڑا لائی

تجھ نگاہ تیز نے اے سینہ سخت

 تجھ نگاہ تیز نے اے سینہ سخت

دل کو جیوں ہیرا کیا ہے لخت لخت

ہے غلط کہنا تجھے مانندِ سرد

آدمی کا کیوں کہ ہو ہمسر درخت

طالعِ بد کی جدھاں لگ اوج ہے

مہر سوں دیکھے نہیں دو نیک بخت

ویران ہوا ہردے کا نگر

 ویران ہوا ہردے کا نگر

سنسان پڑے ہیں کوچہ و در

بے چین بہت ہے ذوقِ نظر

لے جائے نہ جانے مجھ کو کدھر

اجمیر سے پھر سندیس ملا

لو آؤ چلو بلما کے نگر

خامشی چیختی ہے غم کا بیاں ہوتا ہے

 خامشی چیختی ہے غم کا بیاں ہوتا ہے

درد ایسے مِرے اندر کا عیاں ہوتا ہے

یوں نہیں ہجر میں تیرے ہو گئے ہیں تنہا

لاکھوں ہیں اِک بھی مگر تجھ سا کہاں ہوتا ہے

غم کے اظہار کو ہیں دنیا میں حیلے کتنے

ہائے وہ دکھ جو خموشی میں نہاں ہوتا ہے

ہم کشتگان عشق انہیں بے وفا کہیں

 ہم کشتگان عشق انہیں بے وفا کہیں

ان کے ستم کو کیوں نہ ہم ان کی ادا کہیں

سر تا قدم خلوص سے ان کے جو ہو گئے

یہ سہو ہے جو اپنے سے ان کو جدا کہیں

وہ ہم سے پوچھ بیٹھیں اگر؛ کیا ہے تیرا نام

کوئی ہمیں بتائے کہ؟ ہم ان سے کیا کہیں

اے وقت اٹل اپنے ارادوں میں ہیں ہم بھی

 اے وقت اٹل اپنے ارادوں میں ہیں ہم بھی

اک روز نکالیں گے تِری زلف کے خم بھی

ہے اور ہی کچھ لطفِ عبادت تِرے در پر

ہے یوں تو کلیسا بھی، شوالہ بھی، حرم بھی

اے ناصحِ مشفق! جسے کہتے ہیں محبت

انساں کے لیے ہے وہ ضروری بھی اہم بھی

Tuesday, 15 July 2025

کہنے لگا یہ غار حرا کوہ طور سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کہنے لگا یہ، غارِ حِرا، کوہِ طُور سے

مِلنے کا اشتیاق تو ہو گا، حضورؐ سے

کیسے مِلائے نُور سے نظریں، یہ رُوسیاہ

تکتا ہوں اُنؐ کا روضہ مگر دُور دُور سے

انسان، رب کو سب سے زیادہ عزیز ہے

ظاہر ہُوا یہ راز انہیؐ کے ظہور سے

غفلتوں سے کبھی ہشیار بھی ہو سکتا ہے

 غفلتوں سے کبھی ہشیار بھی ہو سکتا ہے

آدمی خواب سے بیدار بھی ہو سکتا ہے

حسن کو عشق کا آزار بھی ہو سکتا ہے

جو مسیحا ہے وہ بیمار بھی ہو سکتا ہے

گلشنِ دہر کی رنگین بہاروں پہ نہ جا

آج جو پھول ہے وہ خار بھی ہو سکتا ہے

بے وفا ہے با وفا ہے فیصلہ ہوتا نہیں

 بے وفا ہے با وفا ہے فیصلہ ہوتا نہیں

اس سے مل کر بھی حقیقت کا پتا ہوتا نہیں

جب چمکتی شاہراہیں سامنے موجود ہوں

مجھ سے پھر پگڈنڈیوں پر اکتفا ہوتا نہیں

درد کے رشتوں کی اپنی اک الگ ہے داستاں

فاصلہ ہوتا ہے پھر بھی فاصلہ ہوتا نہیں

لفظ گونگے ہو گئے لہجے کی عیاری کے بعد

 لفظ گونگے ہو گئے لہجے کی عیاری کے بعد

وہ برہنہ ہو گیا اتنی اداکاری کے بعد

چند بوسیدہ کتابیں کرم خوردہ کچھ ورق

یہ صلہ بھی کم نہیں اک جرم فنکاری کے بعد

رات کے منظر کھلی آنکھوں میں پتھر ہو گئے

خواب میں جاگے ہوئے لگتے ہیں بیداری کے بعد

اپنے ہی گھر کے فرد اگر دشمنی کریں

 اپنے ہی گھر کے فرد اگر دشمنی کریں

کس آسرے پہ ہم یہ بسر زندگی کریں

یارو! قدم قدم پہ اندھیرے ہیں حکمران

سورج کدھر اگائیں کہاں روشنی کریں

لڑوا رہے ہیں رام کو جو بھی رحیم سے

ان مذہبی خداؤں سے کیا دوستی کریں

تھا مرا سب پر بچا کچھ بھی نہیں

 تھا مِرا سب پر بچا کچھ بھی نہیں

اب مِرا مجھ میں رہا کچھ بھی نہیں

میں بھلا کیوں کہتا گر ملتی خوشی

زندگی غم کے سوا کچھ بھی نہیں

عمر خدمت کو دی اور اس کے عوض

ایک ہستی نے لیا کچھ بھی نہیں

کسی کی آنکھ میں رہتا کسی کے دل میں رہ جاتا

 کسی کی آنکھ میں رہتا کسی کے دل میں رہ جاتا

غبار غمزدہ اٹھتا تو اس مشکل میں رہ جاتا

لیا ہے گاہے گاہے نقش پائے یار کا بوسہ

نہ وہ باہر نکلتا یہ بھی ارماں دل میں رہ جاتا

سبب سے ناتوانی کے نہ پہنچا کوئے جاناں تک

جو میں گھر سے نکلتا پہلی ہی منزل میں رہ جاتا

Monday, 14 July 2025

یاد سرکار کو سینے سے لگا رکھا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یاد سرکارﷺ کو سینے سے لگا رکھا ہے​

عشق ان کا ہی فقط دل میں بسا رکھا ہے

لب پہ جس نے بھی ترا ذکر سجا رکھا ہے

خود کو اس نے یوں مصائب سے بچا رکھا ہے

مجھ پہ انعام ہوا ہے یہ مرے آقاﷺ کا

الفتِ شاہﷺ سے اس دل کو سجا رکھا ہے

الجھی عقیدتوں کے بیانات ہمسفر

 الجھی عقیدتوں کے بیانات ہمسفر

جس راہ بھی گئے یہ خرابات ہمسفر

مشکل ترین خواہش تحقیق کا سفر

پر خار راستوں پہ مکافات ہمسفر

دل کی تڑپ کے واسطے محبوب ناگزیر

راہ وفا میں غم کے کنایات ہمسفر

ہو جائیں گے ہمدم ترے غماز ابھی اور

 ہو جائیں گے ہمدم ترے غماز ابھی اور

برباد کریں گے تجھے ہمراز ابھی اور

ہے نغمۂ جان سوز تِرے غم کا مداوا

اے مطربِ رنجور! اٹھا ساز ابھی اور

اسلام پہ پھر کُفر کی یلغار ہوئی ہے

اے صاحبِ ایماں! کوئی اعجاز ابھی اور

نبھایا عشق نے رشتہ جو پیاس پانی کا

 نبھایا عشق نے رشتہ جو پیاس پانی کا

اڑا کے لے گیا ہوش و حواس پانی کا

کٹے شجر کے سسکتے ہوئے سے پتوں پر

دکھائی دیتا ہے چہرہ اداس پانی کا

شریف لوگوں کی آنکھوں میں آگ رکھ دے گی

پہن کے نکلے گی جب وہ لباس پانی کا

گفتار اور نہ جبہ و دستار دیکھیے

 گفتار اور نہ جبہ و دستار دیکھیے

ناوک جنابِ شیخ کا کردار دیکھیے

میری طرف سے اے مرے سرکار دیکھیے

کب سے کھڑا ہے طالبِ دیدار دیکھیے

فیشن کی گر یہی رہی رفتار دیکھیے

ننگے پھریں گے سب سرِ بازار دیکھیے

سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی

 سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی

اثر دکھائے گا درد نہاں کبھی نہ کبھی

کبھی تو آتش نمرود سرد بھی ہو گی

قرار پائے گا قلب تپاں کبھی نہ کبھی

یہ آج گردش شام و سحر بتاتی ہے

نظر بچائے گا خود آسماں کبھی نہ کبھی

Sunday, 13 July 2025

آپ کی نعت پڑھوں اور وہیں ہونے لگوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپﷺ کی نعت پڑھوں اور وہیں ہونے لگوں

شہرِ طیبہ کا میں بے مثل مکیں ہونے لگوں

جب کوئی ذکر کرے صلے علیٰ صلے علیٰ

ایک امید بنوں دل کے قریں ہونے لگوں

چاہتا میں بھی ہوں اب آپ کا روضہ دیکھوں

اس سے پہلے کے میں ہجراں سے حزیں ہونے لگوں

اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیے

 اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیے

عمر کے اس دور میں اب ذمہ داری چاہیے

وصل‌ و فرقت کے طلسمی دائروں سے ٹوٹ کر

اب رفاقت میں ہمیں کچھ پائیداری چاہیے

یوں نہیں کے صبر کی تلقین کر کے چل دئیے

چارہ گر ہیں تو مسلسل غم گساری چاہیے

زخم جفا کریدوں یا ذکر وفا کروں

 زخم جفا کریدوں یا ذکر وفا کروں

تم آؤ سامنے تو کوئی فیصلہ کروں

جی چاہتا ہے پھر ملیں فرصت کے رات دن

تجدیدِ رسم ہائے محبت کیا کروں

رنج و الم کے درد کے ابواب کھول دوں

کہیے کہاں سے قصۂ دل ابتدا کروں؟

گھر جو بھرنا ہو تو رشوت سے بھی بھر جاتا ہے

 گھر جو بھرنا ہو تو رشوت سے بھی بھر جاتا ہے

ہاں مگر اس سے دعاؤں کا اثر جاتا ہے

اک عجب دور کہ دستار بچانی مشکل

اور اس کو جو بچاتا ہوں تو سر جاتا ہے

دیکھتا ہے کوئی ساحل سے سکوتِ دریا

لے کے کشتی کوئی طوفاں میں اتر جاتا ہے

کرب جدائی آنکھوں میں آنے نہیں دیا

 کرب جدائی آنکھوں میں آنے نہیں دیا

بے کار آنسوؤں کو بھی جانے نہیں دیا

میں نے نکل کے خود سے بنایا تجھے خدا

تو نے عقیدتوں کو نبھانے نہیں دیا

کچھ دان مانگ لیتا مگر رات دل نے بھی

سوئی ہوئی پری کو جگانے نہیں دیا

دل شب فرقت سکوں کی جستجو کرتا رہا

 دل شب فرقت سکوں کی جستجو کرتا رہا

رات بھر دیوار و در سے گفتگو کرتا رہا

جو بہاروں کی چمن میں آرزو کرتا رہا

نذر رنگ و بو خود اپنا ہی لہو کرتا رہا

شیشۂ دل جو نزاکت میں گہر سے کم نہیں

عشق میں کیسے ستم سہنے کی خو کرتا رہا

Saturday, 12 July 2025

یہ کس کا لاڈلہ ہے اور کون شہسوار ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ کس کا لاڈلہ ہے اور کون شہ سوار ہے

فلک سے بھی بلند جس کے پاؤں کا غبار ہے

لٹائیں اپنے ہاتھوں میں اٹھا کے شیر خوار بھی

یہ عشق ہے محمدیﷺ، بڑا ہی ذی وقار ہے

حسینؑ اپنے ہی لہو سے جو سنوارتے رہے

چہار سُو وہ گُلستانِ مصطفیٰﷺ کی بہار ہے

زندگی تو سمجھ نہیں آتی

 مجھ کو یہ سب سمجھ نہیں آتا

زندگی! تُو سمجھ نہیں آتی

موت کا ڈر سمجھ نہیں آتا

آنا جانا ہماری سانسوں کا

وقت کی تیز، تُند، خُشک ہوا

کیسے انسان کو بناتے ہیں

پھر اپنی قوت بازو کو آزمانے جا

 پھر اپنی قوت بازو کو آزمانے جا

جلا کر کشتیاں بستی نئی بسانے جا

کھنچے گی کھال بھی تیری چڑھے گا دار پہ بھی

ہے موت رو برو تیری گلے لگانے جا

ادب کی روشنی پھیلے ہو نام اردو کا

جہاں بھی بزمِ سخن ہو غزل سنانے جا

کوئی رہزن نہ اب راہبر چاہیے

 کوئی رہزن نہ اب راہبر چاہیے

اس سفر میں ہمیں ہمسفر چاہیے

دشمنوں کو تو تم جانتے ہو مگر

دوستوں کی بھی تھوڑی جگہ چاہیے

خوبصورت ہے دنیا بہت دوستو

دیکھنے کے لیے بس نظر چاہیے

دوستوں کو یوں ستانا چھوڑ دے

 دوستوں کو یوں ستانا چھوڑ دے

دشمنوں کا دل بڑھانا چھوڑ دے

تم ہی دنیا بھی مری ہو دین بھی

کیا ہے گر سارا زمانہ چھوڑ دے

حال دل کہنا جو چاہا یہ کہا

بے سر و پا یہ فسانہ چھوڑ دے

جبر کا دور ہے آہوں میں اثر پیدا کر

 جبر کا دور ہے آہوں میں اثر پیدا کر

ظلمت شب سے ہی آثار سحر پیدا کر

جور مغرب سے نہ انداز حذر پیدا کر

تخت باطل جو الٹ دیں وہ بشر پیدا کر

غیر کو اپنا بنا لے وہ نظر پیدا کر

سنگریزوں سے گہر پاش گہر پیدا کر

Friday, 11 July 2025

میری زباں پہ نعت رسول خدا کی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ پر یہ مہربانئ حق انتہا کی ہے

میری زباں پہ نعت رسولِ خدا کی ہے

لب پر خدا کا نام ہو، دل میں نبیؐ کی یاد

مومن کے واسطے یہی صورت بقا کی ہے

ڈوبے گی کیسے کشتئ دینِ خدا کبھی

اس پر ازل سے خاص نظر ناخدا کی ہے

سفر حسین تھا منزل کا کیا ملی نہ ملی

 محبتیں تو ملیں، گو وفا ملی نہ ملی

سفر حسین تھا منزل کا کیا ملی نہ ملی

نہ دوستوں سے توقع نہ دشمنوں سے گریز

یہ دل تھا گورِ غریباں، شمع جلی نہ جلی

عجب سا حبس ہے انسانیت کے ذہنوں میں

کسے ہو فکر کہ بادِ صبا چلی نہ چلی

نرمیاں ہیں تمہاری بولی میں

 نرمیاں ہیں تمہاری بولی میں

اور پتھر پڑے ہیں جھولی میں

سج گئی میری سوچ کی دھرتی

رنگ اس نے بھرے رنگولی میں

یوں ہوا پھر پگھل گیا منظر

صبح سورج اگا جو کھولی میں

خون میں ڈوبے لبوں پر اک دعا رہ جائے گی

 خون میں ڈوبے لبوں پر اک دعا رہ جائے گی

اک ابھرتی، ڈوبتی قاتل صدا رہ جائے گی

کیا پتہ کس روز چھِن جائے گی ہونٹوں کی ہنسی

حسرتوں کے دوش پر خالی ہوا رہ جائے گی

زرد پتوں کا کفن بھی ایک دن چھِن جائے گا

کیا بتاؤں؛ آبرو موسم کی کیا رہ جائے گی

غم فراق ہے میں آنسوؤں میں ڈوبا ہوں

 غم فراق ہے میں آنسوؤں میں ڈوبا ہوں

شدید دھوپ میں بھی زیرِ آب بیٹھا ہوں

عجب نہیں کہ یہاں سبز کونپلیں پھوٹیں

میں اپنی سوچ کے صحرا پہ کھل کے برسا ہوں

ترے خیال کا سورج جہاں بھی ڈوبا تھا

اسی مقام پہ اب تک اداس بیٹھا ہوں

گلوں سے ڈر رہے ہیں تتلیوں سے خوف آتا ہے

 گلوں سے ڈر رہے ہیں تتلیوں سے خوف آتا ہے

عجب عہد ستم ہے، دوستوں سے خوف آتا ہے

ہمیں لہروں سے لڑنا ہے یہ دریا پار کرنا ہے

مگر اے ناخداؤ! کشتیوں سے خوف آتا ہے

عجب ماحول ہے، سسکی، صدا، نوحہ نہیں کوئی

عجب چُپ ہے کہ دل کی دھڑکنوں سے خوف آتا ہے

Thursday, 10 July 2025

ہوئی قبول مری ہر دعا مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہوئی قبول مِری ہر دُعا مدینے میں

میں کیا بتاؤں کہ کیا کیا ملا مدینے میں

میں مانتا ہوں کہ کعبے کی شان ہے

اپنی مگر یہ سچ ہے بڑا دل لگا مدینے میں

میں ایک شام مدینے میں دیکھ آیا ہوں

بڑے ادب سے ہے چلتی ہوا مدینے میں

سنگدل کو دل دینا حوصلوں کی باتیں ہیں

 سنگدل کو دل دینا حوصلوں کی باتیں ہیں

آئینوں کے افسانے کرچیوں کی باتیں ہیں

پھول پھول خاموشی، شاخ شاخ سناٹا

پیڑ پیڑ پنچھی ہیں پت جھڑوں کی باتیں ہیں

بارشوں کی رم جھم میں تو نہیں سمجھ سکتا

ہجر کتنا مہلک ہے آنسوؤں کی باتیں ہیں

مجھ سے تو اپنا بار اٹھایا نہیں جاتا

 مجھ سے تو اپنا بار اٹھایا نہیں جاتا

غربت میں کوئی رشتہ نبھایا نہیں جاتا

کرتے نہیں تذلیل غریبوں کی کبھی بھی

بے جرم کسی کو بھی ستایا نہیں جاتا

بے وجہ روٹھ بھی جائے کوئی پیارا

پیروں پہ گر کے اس کو منایا نہیں جاتا

گر مظہر وحدت ہے سب کفر و مسلمانی

 گر مظہر وحدت ہے سب کفر و مسلمانی

شیطان کے تابع ہے کیوں فطرت انسانی

پابندِ سلاسل ہوں آئینِ محبت میں

دل ہی تو شکستہ ہے باقی ہے پشیمانی

بیمار محبت کو شاید کہ قرار آیا

شاہد ہے فضاؤں میں تاروں کی پریشانی

کسی سے عشق مرا والہانہ ہوتے ہوئے

 کسی سے عشق مِرا والہانہ ہوتے ہوئے

میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

وہ ٹیلی فون کی گھنٹی یقیں دلاتی ہے

مِرے قریب ہے تو غائبانہ ہوتے ہوئے

وہ نسل نو کے لیے دے گیا نیا فیشن

میں جس لباس کو پہنوں پرانا ہوتے ہوئے

بازار ترے شہر کے بدنام بہت ہیں

 بازار ترے شہر کے بدنام بہت ہیں

چھوٹی سی خوشی کے بھی یہاں دام بہت ہیں

میں کیسے چلوں حوصلے کا ہاتھ پکڑ کر

اس زندگی میں گردش ایام بہت ہیں

ہونٹوں سے بغاوت کی سدا کیسے ہو جاری

واعظ کو حکومت سے ابھی کام بہت ہیں

Wednesday, 9 July 2025

قلب و نظر میں طیبہ بساؤ تو عید ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قلب و نظر میں طیبہ بساؤ تو عید ہے

یوں آخرت کو اپنی بناؤ تو عید ہے

میلاد مصطفیٰﷺ کا مناؤ تو عید ہے

نعتِ نبیﷺ کو لب پہ سجاؤ تو عید ہے

کب جان اپنی موت سے کوئی چھڑا سکا

ہجرِ نبیﷺ میں اشک بہاؤ تو عید ہے

جو دل میں رواں ہے روایت نہیں ہے

 جو دل میں رواں ہے روایت نہیں ہے

یہ سچ ہے محبت سہولت نہیں ہے

تمہیں بھول جانے کی کوشش بہت ہے

اگرچہ بھلانے کی طاقت نہیں ہے

مجھے اس نے چھوڑا مرا دل بھی توڑا

مجھے اس پہ کوئی بھی حیرت نہیں ہے

یہ دل کا درد بھی جاگا ہوا سا رہتا ہے

 یہ دل کا درد بھی جاگا ہوا سا رہتا ہے

اندھیری رات کا سایہ گھنا سا رہتا ہے

چمکتی راکھ میں شعلہ دبا سا رہتا ہے

کسی کا نام بھی لب پر رکا سا رہتا ہے

ہماری آنکھ کی مٹی ہمیشہ نم ہی رہی

ہمارا زخم جگر بھی ہرا سا رہتا ہے

درد حد سے بڑھ گیا اب اس کا درماں ہو تو کیا

 درد حد سے بڑھ گیا اب اس کا درماں ہو تو کیا

شیشۂ دل 💔 توڑ کر کوئی پشیماں ہو تو کیا

حسرتوں میں یاں بدل بیٹھے ہیں ساری آرزو

اب کوئی چشمِ کرم مائل بہ احساں ہو تو کیا

اب شبِ عشرت کہاں ہے کوئی مانندِ شفق

شامتِ اعمال سے چاکِ گریباں ہو تو کیا

پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

 پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں

دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں

ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں

بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا

میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں

وہ درد عشق جس کو حاصل ایماں بھی کہتے ہیں

 وہ درد عشق جس کو حاصل ایماں بھی کہتے ہیں

سیہ بختوں میں اس کو گردش دوراں بھی کہتے ہیں

جو آغوش حیا میں ایک دل آویز نشتر ہے

اسی موج نظر کو گلشن خنداں بھی کہتے ہیں

حجابات نظر جلووں کی بے باکی سے کیا اٹھیں

محبت کی نظر کو دیدۂ حیراں بھی کہتے ہیں

Tuesday, 8 July 2025

شق دیوارِ کعبہ ہے قصیدہ اپنے مولا کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شقِ دیوارِ کعبہ ہے

قصیدہ اپنے مولاؑ کا

کہ ان کے نام سے

کوئی بھی خیبر ٹوٹ سکتا ہے

ولادت سے شہادت تک

سراپا زندگی ان کی

سودا ہے جس میں اپنا انا کا وہ سر بھی دیکھ

 کیا دیکھتا ہے حال کے منظر ادھر بھی دیکھ 

ماضی کے نقش یاد کی دیوار پر بھی دیکھ 

دیکھے ہیں میرے عیب تو میرا ہنر بھی دیکھ 

سودا ہے جس میں اپنا انا کا وہ سر بھی دیکھ 

لے کام مجھ سے سخت اڑانوں کا تو مگر 

پہلے مِری نگاہ، مِرے بال و پر بھی دیکھ 

مٹاتا ہی رہا نقشِ قدم میں اپنے رہزن کا

 الٰہی نزع میں بھی ورد ہو ساقئ کوثر کا

صراحی کی طرح قلقل میں ڈھل جائے میرا منکا

دو عالم کی بلند و پست ہو جاتا ہے آئینہ

لچکنا ہی قیامت ہے، مِری شاخِ نشیمن کا

جہاں بیت الصنم تھا، اب وہیں بیت الحرم ٹھہرا

توارد ہو گیا اس بیت میں شیخ و برہمن کا

جب جھوٹ مجھ سے برسر پیکار ہو گیا

 جب جھوٹ مجھ سے برسر پیکار ہو گیا

لہجہ جو میرا پھول تھا تلوار ہو گیا

حق بات بولنے کی قسم جب سے کھائی ہے

جینا ہمارا شہر میں دشوار ہو گیا

دھوکہ فریب جھوٹے دلاسے تسلیاں

پھر آج اس کے نام یہ اخبار ہو گیا

بگڑتی زیست کی کچھ ساعتیں سنوارسکیں

 بگڑتی زیست کی کچھ ساعتیں سنوارسکیں

بس اتنا فاصلہ رکھ پھر تجھ کو پکار سکیں

ہمارے ہاتھ میں خنجر تو دے دیا تُو نے

مگر وہ حوصلہ، ہم جس سے خود کو مار سکیں

کچھ اس لیے بھی لگائی ہے تجھ سے بازئ جاں

کہ ہارنا بھی پڑے تو خوشی سے ہار سکیں

کبھی ان کا نام لکھا کبھی لکھ کے پھر مٹایا

 کبھی ان کا نام لکھا کبھی لکھ کے پھر مٹایا

غم ہجر میں بھی میں نے بڑا لطف ہے اٹھایا

تجھے ہے طلب گلوں کی تو عبث یہ سوچنا ہے

کہیں خار چبھ نہ جائے اگر ہاتھ کو بڑھایا

میری ہے یہی تمنا ترے ساتھ رات گزرے

تیرے واسطے ہی جاناں میں نے روم ہے سجایا

Monday, 7 July 2025

افسوس کا مقام ہے بنتے ہو اہل دیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

حضرت عباسؑ کا رجز


افسوس کا مقام ہے بنتے ہو اہلِ دیں

احکام حق سے حیف ہے واقف ذرا نہیں

کس کے طفیل میں بنے یہ آسماں زمیں

محبوب حق نبیﷺ خدا ختمِ مرسلیں

مہماں تمہارا حیف اسی کا نواسہ ہے

مر جانے کی جگہ ہے کہ دو دن سے پیاسا ہے

ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت

 ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت 

رات اندھیری ہی سہی پھر بھی اجالا ہے بہت 

مانگ کر میری انا کو نہیں دریا بھی قبول 

اور بے مانگ میسر ہو تو قطرہ ہے بہت 

یہ تو سچ ہے کہ شب غم کو سنوارا تم نے 

چشمِ تر نے بھی مِرا ساتھ نبھایا ہے بہت 

بس بہت کھیل چکے کھیل یہ پانا کھونا

 میرے موتی ہیں خذف خاک ہے میرا سونا

میری تحریر کو آیا نہ قصیدہ ہونا

کب تلک سانپ کے پہرے کا تماشا اے دل

میرا گھر ہے مِرے اجداد کا چاندی سونا

آخری داؤ لگانے کی گھڑی آ پہنچی

بس بہت کھیل چکے کھیل یہ پانا کھونا

کچھ دکھی انسانیت کی روح کو آرام دیں

 کچھ دُکھی انسانیت کی رُوح کو آرام دیں

ہم زمانے بھر میں جا کر امن کا پیغام دیں

اپنی دُھن میں مست رہنے کی اگر ڈالیں روش

ایک دُوجے پر نہ جھُوٹے ہم کبھی الزام دیں

ظُلمتوں میں ٹھوکریں کھاتی پھرے گی کب تلک

زندگی کے ہاتھ میں اب روشنی کا جام دیں

ستم کرنا کرم کرنا وفا کرنا جفا کرنا

 ستم کرنا کرم کرنا وفا کرنا جفا کرنا

مگر جو عہد کر لینا وہ آخر تک وفا کرنا

کیا خلوت میں مجھ کو قتل اور محفل میں روتے ہو

قیامت ڈھا کے اچھا یاد ہے محشر بپا کرنا

بتا اے حسن کب تک عشق کی تقدیر میں آخر

بہ منت دل دیا کرنا بہ حسرت منہ تکا کرنا

جیسے جیسے خود نوشت دوستاں پڑھتے گئے

 جیسے جیسے خود نوشتِ دوستاں پڑھتے گئے

دشمنوں کے باب میں کچھ کچھ ورق جھُوٹے لگے

خوش یقیں ہوں میرے اندر کوئی ہے محوِ کلام

میں فقط دو ہونٹ ہوں جو بھی کہے وہ ہی کہے

کیا بھروسہ پتھروں میں ڈُوب جائے آبشار

سانس میں جھکڑ چلے کب جسم کا تودہ ڈھے

Sunday, 6 July 2025

احوال حسین ابن علی باعثِ غم ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


احوال حسینؑ ابن علیؑ باعثِ غم ہے

رنجحش ہے بشر کو تو فرشتوں کو الم ہے

نام شہ دیں عرش معلی پہ رقم ہے

مسجود خدا لوح مبارک پہ قلم ہے

یہ پنجتن پاک تو اشرف ہیں جہاں سے

بہتر ہیں خدائی میں یہی کون و مکاں سے

نبی کے نور نظر نور عین سے بیعت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نبیﷺ کے نور نظر نور عین سے بیعت

صفین بھول کے بدر و حنین سے بیعت

رکی ہوں میں علیؑ مولا کے حرفِ اول پر

دمِ اخیر پہ کر لوں میں عین سے بیعت

سلگتے دشت میں بے چین تشنہ لب حُر نے

درِ حسینؑ پہ کر لی ہے چین سے بیعت

تکمیل آرزو کا اشارہ نہیں ملا

 تکمیل آرزو کا اشارہ نہیں ملا

دریا تو مل گیا ہے کنارہ نہیں ملا

لوٹا ہوں بے قرار فلک سے ہزار بار

تھی جس کی جستجو وہ ستارہ نہیں ملا

اک بار جو ملا تھا دل و جاں لیے ہوئے

وہ شخص زندگی میں دوبارہ نہیں ملا

یاد ماضی خدا کی رحمت ہے

 یاد ماضی


زندگی کے سیاہ کمرے میں

بیتی یادوں کے چند جگنو ہیں

جو مسلسل تسلیاں دے کر

مجھ کو سمجھا رہے ہیں برسوں سے

صرف پانا ہی شرط عشق نہیں

عشق تو وہ عظیم مرکز ہے

کبھی بہار نہ آئی بہار کی صورت

کبھی بہار نہ آئی بہار کی صورت

بدل گئی چمن روزگار کی صورت

ہوائے لطف و کرم کے فقط سہارے پر

پڑے ہیں راہ میں گرد و غبار کی صورت

وفا کی شکل نہ دیکھی تمہارے وعدوں پر

یہی زمانے میں ہے اعتبار کی صورت

درد کی اس دل میں بھی تصویر کھینچ

 درد کی اس دل میں بھی تصویر کھینچ

کھینچ اور اک آہِ پُر تاثیر کھینچ

اشکِ خُونیں سے سرِ دامن کوئی

غم کی جیتی جاگتی تصویر کھینچ

اس سے وابستہ ہے میری زندگی

یوں نہ میرے دل سے اپنا تیر کھینچ

Saturday, 5 July 2025

کیجیے کس منہ سے توصیف و ثنائے مصطفیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کیجیے کس منہ سے توصیف و ثنائے مصطفیٰ

مظہرِ شانِ خدا ہے ہر ادائے مصطفیٰ

دل نثارِ مصطفیٰ ہے، جاں فدائے مصطفیٰ

دین و دنیا کی دولت ہے ولائے مصطفیٰ

ہیں ثنا خوانِ نبیؐ اہلِ فلک اہلِ زمیں

فرش سے تا عرش پہونچی ہے ضلائے مصطفیٰ

راکھ ہونے کی گھڑی ہو جیسے

 راکھ ہونے کی گھڑی ہو جیسے

آگ سینے میں لگی ہو جیسے

گھر کے آنگن میں دھواں ہے ایسا

میری دنیا ہی جلی ہو جیسے

بند مٹھی کو ہیں تکتے ہر پل

اپنی قسمت میں یہی ہو جیسے

جو قطرے میں سمندر دیکھتے ہیں

 جو قطرے میں سمندر دیکھتے ہیں 

تجھے منظر بہ منظر دیکھتے ہیں 

قبائے درد جب سے زیب تن ہے 

خوشی کو اپنے اندر دیکھتے ہیں 

چلو امن و اماں ہے میکدے میں 

وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں 

یادوں کا ایک بار گراں چھوڑ گئے ہیں

یادوں کا ایک بار گراں چھوڑ گئے ہیں

جینے کے لیے کچھ تو یہاں چھوڑ گئے ہیں

وہ چھین گئے ہیں مِری نیندیں، مِرے سپنے

حصہ میں مِرے آہ و فگاں چھوڑ گئے ہیں

معیار بنایا تھا جنہیں علم و عمل کا

وہ دل میں مِرے دردِ نہاں چھوڑ گئے ہیں

ستاروں کی طرح غم کے حوالے چھوڑ جاؤں گا

 ستاروں کی طرح غم کے حوالے چھوڑ جاؤں گا 

اندھیرے ساتھ رکھوں گا اجالے چھوڑ جاؤں گا

کسی مفلس کو مل جائے مرے حصے کا کھانا بھی 

میں دستر خوان پر اپنے نوالے چھوڑ جاؤں گا

جنہیں پڑھ کر کبھی سوچوں سے حیرانی نہ جائے گی 

ادیبوں کے لیے ایسے مقالے چھوڑ جاؤں گا

کسی بھی چیز کو محدود کر کے دیکھتے ہیں

 کسی بھی چیز کو محدود کر کے دیکھتے ہیں

نگاہِ ناز کو محمود کر کے دیکھتے ہیں

یہی کہا تھا نہ اِبلیس نے بھی وقتِ سجود

ہم اپنے آپ کو مردود کر کے دیکھتے ہیں

چلو کہ کاٹتے ہیں کِشتِ جاں سے رنج و الم

رہِ حیات کو مسدود کر کے دیکھتے ہیں

Friday, 4 July 2025

احمد کہوں تمہیں کہ محمد کہا کروں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


احمدﷺ کہوں تمہیں کہ محمدﷺ کہا کروں

کس نام سے میں یاد تمہیں مصطفیٰﷺ کروں

شمس الضحیٰ بھی تم ہو تو بدرالدجیٰ بھی تم

تم نور، علیٰ نور ہو میں کیا ثنا کروں

سب انیس و جاں ہیں آپ کی رحمت کے سائے میں

توصیف آپ کی میں کیا خیرالوریٰ کروں

وقت باقی ہے ابھی آؤ کہ الفت کر لیں

 التجا


آ بھی جاؤ کہ نئے سر سے محبت کر لیں

دل کے ویرانے کو معمورِ مسرت کر لیں

گردش چرخ کو پھر خوگرِ بہجت کر لیں

عمر ناشاد کو سرمایۂ عشرت کر لیں

وقت باقی ہے ابھی آؤ کہ الفت کر لیں

آ بھی جاؤ کہ نئے سر سے محبت کر لیں

میں وہ دریا کہ سمندر بھی بہا لے جاؤں

 اب یہی سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لے جاؤں

دل سے اچھا ہے تری یاد چرا لے جاؤں

اپنی مرضی سے اگر آنا ہے آجا ورنہ

اتنا کم ظرف نہیں تجھ کو اٹھا لے جاؤں

میں نے جانا ہے افق پار کسی سے ملنے

تم نے جانا ہے اگر ساتھ تو آ، لے جاؤں

سلگتی ریت پہ خیمہ لگا کے دیکھا ہے

 سلگتی ریت پہ خیمہ لگا کے دیکھا ہے

ہمیں نے دشت کو مسکن بنا کے دیکھا ہے

ہمارے شعر تمہیں کس طرح سمجھ آئیں

ہمارا حال کہاں تم نے آ کے دیکھا ہے

کچھ اس طرح سے بتائی ہیں ہجر کی راتیں

کے جیسے موسم گرما بتا کے دیکھا ہے

جو ہم نے تجھ سے نبھائی وہ دوستی لکھنا

 کبھی ہمارے بھی حالاتِ زندگی لکھنا

جو ہم نے تجھ سے نبھائی وہ دوستی لکھنا

خلوص کا تھا تقاضا تری محبت بھی

روا رہی ہے جو تجھ سے وہ بے رُخی لکھنا

ملے ہیں پھولوں کے ہمراہ خار بھی ہم کو

حیات کرتی رہی ہے جو کج روی لکھنا

تعلیم جہاں کے معمارو دولت کی حمایت چہ معنی

 اساتذہ سے غیر مساوی سلوک پر ایک نظم


تعلیم جہاں کے معمارو! دولت کی حمایت چہ معنی؟

استاد اگر قلاش رہے، پتھر کی عمارت چہ معنی؟

ہم بھول گئے اپنے گھر کو تعلیم سے رغبت ایسی تھی

پھر آپ نے آ کر فرمایا، بے لوث محبت چہ معنی؟

ہم دیکھ کے سبزہ چاروں طرف آنکھوں کو طراوت دیتے تھے

پھولوں کے شگوفوں سے یارو! کانٹوں کی بُجھارت چہ معنی؟

Thursday, 3 July 2025

کربلا آج مرا تیری طرف دھیان گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ایک دو گل نہیں سارا ہی گلستان گیا

کربلا آج مرا تیری طرف دھیان گیا

نام ابو بکر ہو جس کا وہ پہل کرتا ہے

سب سے پہلے بھی ابوبکر ہی قربان گیا

لوگ کہتے ہیں عمر نام کے دو بیٹے تھے

اک وہاں تھا نہیں اور ایک کفن تان گیا

فریب ذات کے دلکش بتوں کو کس نے یوں توڑا

 فریب ذات کے دلکش بتوں کو کس نے یوں توڑا

ہمیں تھے جس نے ہستی کے حقائق سے نہ منہ موڑا

درِ حسرت یہ کیا تکتا ہے اے دل نو بہ نو جلوے

کسی کی سرفرازی دیکھ کر کرئیے نہ دل توڑا

یہ غم کیا کم ہے اے ہمدم! کہ بستی کے غزالوں کو

ابھی دشتِ تغافل کی تمنا نے نہیں چھوڑا

یوں ہی اداس ہے دل بے قرار تھوڑی ہے

 یوں ہی اداس ہے دل بے قرار تھوڑی ہے 

مجھے کسی کا کوئی انتظار تھوڑی ہے

نظر ملا کے بھی تم سے گلہ کروں کیسے 

تمہارے دل پے مرا اختیار تھوڑی ہے

مجھے بھی نیند نہ آئے اسے بھی چین نہ ہو 

ہمارے بیچ بھلا اتنا پیار تھوڑی ہے

بلا سے ہو کہ علاج غم حیات نہ ہو

 بلا سے ہو کہ علاج غم حیات نہ ہو

مری نظر میں مگر صرف میری ذات نہ ہو

نظر میں دن کے اندھیرے رہیں تو شمع گرو

حیات شمع فروزاں کی ایک رات نہ ہو

یہی مزاج ہمیشہ سے ہے محبت کا

میں ہار جاؤں یہ بازی کسی کو مات نہ ہو

جو یہ حرص و ہوس کے سلسلے ہیں

 جو یہ حرص و ہوس کے سلسلے ہیں

انہیں میں ہم الجھ کر رہ گئے ہیں

ہم اک دوسرے سے یوں تو مل رہے ہیں

دلوں میں اپنے پھر بھی فاصلے ہیں

برس جائیں تو کوئی بات ہو گی

سروں پر اپنے جو بادل گھنے ہیں

اسیر کشمکش انتظار ہم بھی ہیں

 اسیر کشمکش انتظار ہم بھی ہیں

تری نگاہ کے امیدوار ہم بھی ہیں

تمہارے سامنے حیراں ہیں مثل آئینہ

خود اپنے حسن نظر کے شکار ہم بھی ہیں

لہو سے اپنے تراوش ہے لالہ و گل پر

شریک قافلۂ نو بہار ہم بھی ہیں

Wednesday, 2 July 2025

کب سے ہیں ہم پامال غم غرق الم شاہ امم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کب سے ہیں ہم، پامالِ غم، غرقِ الم، شاہِ امم

بہرِ خدا، ہو اب عطا، چشمِ کرم، شاہِ امم

اُنظر لنا، ختمِ رسلﷺ، اِرحم لنا مولائے کل

اِرفع لنا چشمِ سخا، دستِ نعم، شاہِ اممﷺ

حالِ دروں کس سے کہوں، زاد و زبوں کب تک رہوں

مہجور یوں، کیسے جیوں، کر دو کرم، شاہِ امم

تیری یاد کے سہارے تھے

 کل شب تیری یاد نے

کچھ ایسے دی دستک

میرے ذہن کے بند دریچوں پہ

کہ وقت کو بھی پر لگ گئے

اور میں اڑنے لگا

تیری یادوں کے سنگ

روپ بدلتی مایا کے سو چہرے جاتے آتے

 روپ بدلتی مایا کے سو چہرے جاتے آتے

مٹی کی کایا لے کر کیا کھوتے کیا پاتے؟

دھیرے دھیرے ہستی کی سب خاک جھڑی جاتی تھی

کچے برتن، آخر کب تک روحوں کو ڈھو پاتے؟

اک وزنی پربت کے نیچے، صبح دبی تھی اپنی

تتر بتر سپنوں کو لے کر رات کہاں بسراتے

ہو سنگ صفت لاکھ بدل جاؤ گے اک دن

 ہو سنگ صفت لاکھ بدل جاؤ گے اک دن

احساس کی گرمی سے پگھل جاؤ گے اک دن

دہلیز سے جس تس کو نکالو گے جو اپنی

خود اپنے ہی گھر سے بھی نکل جاؤ گے اک دن

اتراؤ نہ تم اپنی تب و تاب پہ ایسے

سورج ہو بلندی کے تو ڈھل جاؤ گے اک دن

سجدے قدم قدم پہ گزارے چلے گئے

 سجدے قدم قدم پہ گزارے چلے گئے

کچھ بار سر تھے شوق اتارے چلے گئے

منہ موڑ کر حسین نظارے چلے گئے

جب تم گئے تو چاند ستارے چلے گئے

غیرت گہِ شعور تھی منزل پہ ایک دن

ہم اپنی بے خودی کے سہارے چلے گئے

چلتے چلتے راہوں سے کٹ جانا پڑتا ہے

 چلتے چلتے راہوں سے کٹ جانا پڑتا ہے

ہوتے ہوتے منظر سے ہٹ جانا پڑتا ہے

دیکھنا پڑ جاتا ہے خود کو کر کے ایک تماشائی

اپنی دھول اڑا کر خود اٹ جانا پڑتا ہے

خطاطی سے دور بھٹکنے والے سوچ کے دامن کو

کورے کاغذ کے ہاتھوں پھٹ جانا پڑتا ہے

Tuesday, 1 July 2025

خدائے لا شریک و مصطفیٰ پہ شاعری لکھی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خدائے لا شریک و مصطفیٰؐ پہ شاعری لکھی

علیؑ حسنؑ حسینؑ و فاطمہؑ پہ شاعری لکھی

یہ موضوعات سنیوں میں کم بیاں ہوئے جبھی

مباہلہ غدیرِ خُم کساء پہ شاعری لکھی

وفا شجاع عزم حق شہادتوں کی بات تھی

تو میں نے واقعۂ کربلا پہ شاعری لکھی

تری نظر سے چھپا کے رکھوں

 تری نظر سے چھپا کے رکھوں

میں کیسے خود کو بچا کے رکھوں

زمانے تجھ کو گلہ ہے مجھ سے

میں کیسے دنیا بسا کے رکھوں

مری نظر آسمان پر ہے

زمیں پہ کیسے جھکا کے رکھوں

یوں سر پہ کفن باندھ کے مقتل میں گیا تھا

 یوں سر پہ کفن باندھ کے مقتل میں گیا تھا

مقتل میں کئی دن سے تماشا نہ ہوا تھا

جب ایک تجلّی سے تِری طُور جلا تھا

ہم نے تو اسی روز تجھے مان لیا تھا

مُضمر ہے خُودی ہی میں خرابی کوئی ورنہ

کب بندۂ بے خُود کو خُدائی سے گِلہ تھا

چشم انا سے بادۂ غم پی رہا تھا وہ

 چشم انا سے بادۂ غم پی رہا تھا وہ

کل رات اپنے آپ میں ڈوبا ہوا تھا وہ

مجھ کو مرے وجود سے باہر جو لے گیا

میرے ہی روپ میں کوئی بہروپیا تھا وہ

شور اس کو زندگی کا سنائی نہیں دیا

شاید کسی کی چاہ میں ڈوبا ہوا تھا وہ

عجب آرام ہے جس نے تھکن سے چور کر ڈالا

 عجب آرام ہے جس نے تھکن سے چور کر ڈالا

سفر کی تشنگی سے جسم کو معمور کر ڈالا

اسی نے لا مکاں کی تیرگی کو ارتقا بخشا

مکاں کو ایک دن جس نے اچانک نور کر ڈالا

تخیل کو نظر آنے لگے تھے چاک لفظوں کے

شکستہ پیرہن سالم بدن سے دور کر ڈالا

درد سے اگر رشتہ دوست کا نکل آئے

 درد سے اگر رشتہ دوست کا نکل آئے

غم میں مسکرانے کا راستہ نکل آئے

سچ سے اک تعلق ہے ہر حسین کاوش کا

ہر کہانی ممکن ہے واقعہ نکل آئے

کوٹھیوں میں نکلے گا آدمی بھی مشکل سے

جھونپڑوں میں ممکن ہے دیوتا نکل آئے