Tuesday, 23 August 2016
اک مے بے نام جو اس دل کے پیمانے میں ہے
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
Sunday, 21 August 2016
کیا کرے گا دوسروں کو جان کر
پہلے اپنے آپ کی پہچان کر
یہ زمانہ لا ابالی کا نہیں
پھونک کر پی چھاچھ پانی چھان کر
کیوں الجھتے جا رہے ہو بار بار
دل میں آخر آئے ہو کیا ٹھان کر
بن کر مری محفل سے تو خورشید ازل جا
مغرب میں اگر ڈوبے تو مشرق سے نکل جا
دریا ہے تو دریا کی طرح رہ، کہا کس نے
برسات کے نالے کی طرح بھر کے ابل جا
اے شامِ بلا،۔ شامِ مصیبت،۔ مِری شامت
کیوں سر پہ کھڑی ہے مِرے، ٹل جا ارے ٹل جا
ایک دن زندگی کے ساتھ
مِرا ماضی، وہی منظر، وہی لمحے
جنہیں میں بھول جانے کا گماں بھی کر نہیں سکتا
مِری حالت پہ ہنستے ہیں
میں ہنسنا بھول بیٹھا ہوں
مگر کچھ قہقہے جو پردۂ گوشِ سماعت پر
غموں کی دھوپ سے خود کو بچانے آئے ہیں
تلاش؛ اداس کمرہ ہماری حالت پہ ہنس رہا ہے
گھڑی کی سوئیاں
تڑپ تڑپ کر زوالِ شب کو بڑھا رہی ہیں
ہم اپنے حصے کے زخم لے کر
مہیب راہوں میں کھو گئے ہیں
اکیلے پن کا عذاب ہم پر اتر رہا ہے
لا ملے تو میرے زخم قلب مضطر کا جواب
ڈھونڈ کچھ دن اے بہار اور اس گلِ تر کا جواب
اپنی ویرانی میں دونوں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں
گھر بیاباں کا بیاباں ہے، مِرے گھر کا جواب
میری خاموشی سے چلا اٹھے گا ایک دن رقیب
طعنہ زن کو آدمیت دے گی نشتر کا جواب
نام ہی رہ گیا دنیا میں وفاداری کا
یہ زمانہ ہے تصنع کا، اداکاری کا
روز مر مر کے جئے جانے میں حاصل تھا کمال
موت نے دیکھا تماشا، مِری جیداری کا
گھر پہ روزانہ وہ آتے تھے، عیادت کیلئے
کیا سہانا تھا زمانہ مِری بیماری کا
آپ حد سے گزر گئے شاید
بازار محبت کی تو اپنی ہی ہوا ہے
Saturday, 20 August 2016
اشکوں سے اپنی جھولی قدح خوار بھر چکے
گھر سے بن ٹھن کے صوفیہ نکلے
وطن سے دور عزیز وطن نہیں ملتے
دیارِ شوق کے خوابیدہ راستے جاگے
Wednesday, 17 August 2016
ساقی پر الزام نہ آئے
سب ہی انداز حسن پیارے ہیں
حسن کافر شباب کا عالم
دل کو جب دل سے راہ ہوتی ہے
Tuesday, 16 August 2016
دل میں مرے خیال ہے تنہا نہ آپ کا
حد ادب میں گردش پیمانہ کیوں رہے
آ کے طوفان بلا دیکھ لے مے خانے میں
نپٹیں گے دل سے معرکۂ رہ گزر کے بعد
آفت ہے مصیبت ہے قیامت ہے بلا ہے
بے نام ہوں بے کار ہوں بدنام نہیں ہوں
کوچہ کوچہ نگر نگر دیکھا
میں جو وحشت میں اکیلا نکلا
آرزوئیں ہیں پریشان، نجانے کیا ہو
ہر ایک راستہ ویراں ہو گر تو کیا کیجئے
دوستی جب کسی سے کی جائے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں
بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا
اک گل تر بھی شرر سے نکلا
دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن
سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف
نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا
حسن جلوہ نہیں عشق کا حاصل تنہا
پھٹی قمیص نچی آستین کچھ تو ہے
چاندنی چھت پہ چل رہی ہو گی
پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں
وہ نگاہیں صلیب ہیں
میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
غمگساروں نے تجھے یاد کیا ہے آزاد
داغ وہ تو نے دیا ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں
جب جوش جنوں ہو گرم سفر وہ بند و سلاسل کیا جانے
یوں آمد فصل بہاری کو گلزار میں رقصاں دیکھیں گے
Monday, 15 August 2016
خبر ملی ہے غم گردش جہاں سے مجھے
وہ رت جگا تھا کہ افسون خواب طاری تھا
افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں
سائے گھٹتے جاتے ہیں
مکاں میں قید صدا کی دہشت
ہے اس گل رنگ کا دیوار ہونا
ہے شکل تیری گلاب جیسی
Sunday, 14 August 2016
ذہن کے صحراؤں میں چلتی ہے طوفانی ہوا
دل تو ناداں ہے ترے ساتھ کی ضد کرتا ہے
اپنی دنیا سے چلو میرے جہاں تک آؤ
فریب کھایا تو پھر زیست پر عذاب اترے
اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے
دوست بن بن کے ملے مجھ کو مٹانے والے
یہ حقیقت ہے کہ اثر ہوتا ہے باتوں میں
میری چاہت آزما کر دیکھتے
Saturday, 13 August 2016
یہ جو شیشوں کے کھنکنے کی صدا آتی ہے
سامنے غم کی رہگزر آئی
بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہمسفر جانا
ہر دریچے میں مرے قتل کا منظر ہو گا
تشنگی بے سبب نہیں ہوتی
سرمایۂ یقین بھی ہر چند پاس تھا
جو اس کا ہے وہ غم شاید اپنا ہو
Friday, 12 August 2016
ساقیا رکھتے ہیں ایسی جرأت رندانہ ہم
اک روشنی سی ہے کہ جو دیوار و در میں ہے
لہو جنون کا جب میرے سر سے نکلے گا
Thursday, 11 August 2016
شہرہ مرا ہر صاحب کردار تلک ہے
سکوں زمین قناعت پہ جب نظر آیا
جب بھی کسی سے ترک تعلق کیا کرو
دوسری باتوں میں ہم کو ہو گیا گھاٹا بہت
گھر سے وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا
عشق کا غم نہ گیا حسن کا غمزہ نہ گیا
کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
ہنسی دل لگی مہ جبیں ہو چکی
ہنسی، دل لگی، مہ جبیں ہو چکی
نہیں اب نہ کہنا، نہیں ہو چکی
سنا ہے تِرے خیر مقدم کی عید
کہیں آج ہے، کل کہیں ہو چکی
ہوئی عشق کی بات ازل ہی میں طے
وہیں ہونے والی، وہیں ہو چکی
حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا
حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا
کوئی روئے تمہارے سامنے تو مسکرا دینا
تردد برق ریزوں میں تمہیں کرنے کی کیا حاجت
تمہیں کافی ہے ہنسنا، دیکھ لینا، مسکرا دینا
تکلف برطرف کیوں پھول لے کر آؤ تُربت پر
مگر جب فاتحہ کو ہاتھ اٹھانا، مسکرا دینا
نہ پہنچیں گی نگاہیں ماورائے آسماں کب تک
نئے ماحول میں یوں اہل فن کی آزمائش ہے
ہم صفیروں کا ساتھ چھوٹ گیا
کیا گلہ غیروں کا خود ہی سانحہ لے کر چلے
خورشید و قمر بھی دیکھ لیں گے
کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے
بات کو جرم ناسزا سمجھے
آب مانگو، سراب ملتا ہے
Wednesday, 10 August 2016
پائلیں بجتیں، بڑا شور ہوا کرتا تھا
کیوں جہالت کا جل رہا ہے دیا
تنہا ہی سلگنا کیوں اجڑی ہوئی بانہوں میں
ہر کوچے میں مسجد ہے ہر اِک موڑ پہ مکتب
رب سے نہ کر فریب عبادت کے باب میں
ڈول چھونے سے پہلے پہلے
جہنم ہمیں پکارتا ہے
لیکن وہ اپنی زمین مقررہ مدت تک
ہمیں دان کر چکا
ہم اس کی تھالیوں میں کھا کر
ان میں ہزار چھید کرتے ہیں
بات دل کی ہے بات کہنی ہے
بجائیں صبح کی کھڑکی، الٹ دیں رات کی تھالی
Tuesday, 9 August 2016
یہ ادا آپ میں سرکار کہاں تھی پہلے
نالۂ صبا تنہا پھول کی ہنسی تنہا
تری محفل میں سوز جاودانی لے کے آیا ہوں
غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہو گا
دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں
پھونک کر دشت عرب کی کوکھ میں روح ارم
اک گھنیری چھاؤں پھیلا دی سرِ فرقِ امم
وہ قدیم انسان تخلیقِ جہاں سے بھی قدیم
جس کے احساسات کی تجسیم ہیں لوح و قلم
وہ بقا پرور کہ با معنی ہے مفہومِ وجود
وہ فنا دشمن کہ اب اک لفظ مہمل ہے عدم
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
ایسے کو شب وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
وہ نہیں آتا گر نہیں آتا
چہروں کا دھندلانا تجھ کو بھائے یارا
ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
ہم ثمردار نہیں لائق توقیر نہیں
تیری قرابتوں کے دیئے بال و پر کو میں
سمندر بیکراں ہونے سے پہلے
کوئی انجان جزیروں کا نگر لکھا تھا
فاصلوں کے حصار میں رہنا
دھڑکن دھڑکن ایک ہی نعرہ، اب کیا ہو گا
طورِ سینا کو سر کرو گے میاں
یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب
اس قدر خوف ہے
زندگی ہوں اس لیے ایسا بھی ہوں ویسا بھی ہوں
جنہوں نے باغ کی دھجیاں اڑا ڈالیں
Monday, 8 August 2016
ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
زخم دل پر بہار دیکھا ہے
چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
میری آنکھوں میں امنڈ آیا ہے دریا دل کا
دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
اتنی مدت بعد ملے ہو
جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
آئینے سے بھی ہے منہ یار نے موڑا کیا کیا
بزم قاتل سے نہ بیٹھوں گا میں زنہار جدا
اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے
پہلے مجھ کو بھی خیال یار کا دھوکا ہوا
خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ
دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں
اتنا کیوں شرماتے ہیں
Sunday, 7 August 2016
غیر الفت کا راز کیا جانے
وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا
اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے
دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو
Saturday, 6 August 2016
نہاں جو وہ نظارا ہے، کہاں ہے
آنکھیں بجھی بجھی ہیں، مگر رات ہے کہاں
گڑیا سی لگ رہی تھی وہ نیلے فراک میں
کبھی نہ رونے کی خود کو تلقین کر رہا ہوں
کیسے کریں یقین کہ افتی نہیں رہا
جہاں میں جاؤں ہوا کا یہی اشارہ ہو
یہ فسوں کار بہاروں کا زمانہ ساقی
کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے
کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا
جانے اس شب کون اترا خاک پر
وقت نے جب سے اتارا خاک پر
ہم تو یوں اس کے دھیان سے نکلے
انا کو مار کر اپنی مذمت کر رہے ہیں
Friday, 5 August 2016
لب اگر یوں سیے نہیں ہوتے
زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا
آخر کس امید پہ اپنا سر نہوڑائے
Thursday, 4 August 2016
واعظ مسجد سے اب جاتے ہیں میخانے کو ہم
ان لبوں کی یاد میں داغ دل دیوانہ ہے
اے شیخ و گبر سبحہ و زنار توڑیے
جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے
گلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے
اس میں درپردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے
فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بختِ خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے
تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا
تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا
قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ
مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں
رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا
Wednesday, 3 August 2016
بسوز زخم جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے
بسوزِ زخمِ جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے
اگر نہ عشق میں ہم ترکِ آرزو کرتے
تمہاری آنکھوں نے بہکا دیا ہمیں ورنہ
کبھی نہ جشنِ شبِ بادہ و سبو کرتے
نہ جانے کتنی نگاہوں سے گر گئے ہوتے
بیاں جو حشر میں ہم وجہِ آرزو کرتے
پرسشِ غم کا تقاضا ہے نہ قربت کی طلب
پرسشِ غم کا تقاضا ہے نہ قربت کی طلب
دشمنِ جاں سے بھلا کیوں ہو مروت کی طلب
میرا ایماں ہے تِری چشمِ عنایت کی طلب
مقصدِ زیست نہیں ہے زر و دولت کی طلب
پاسِ ناموسِ وفا راہنمائے دل ہے
حسرتِ دید ہے اظہارِ حقیقت کی طلب
موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی
جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے
ہم اگر شرح آرزو کرتے
دل نے دیکھی ہے تری زلف کے سر ہونے تک
وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے
مغاں سے لطف ملاقات لے کہ آیا ہوں
مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے
اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے
صبح رو رو کے شام ہوتی ہے
طلب ہیں عشق بتاں میں جو آبرو کرتے
شورش کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا
ستمِ یار کی دُہائی ہے
نگہِ اِلتفات نے مارا
علاج کاوش غم خاک چارہ جو کرتے
Tuesday, 2 August 2016
جانا ہے آسمان کے اس پار بھی مجھے
ساتھی ہیں بس اب یہی ہمارے
انگلیوں پر لہو شگوفے ہیں
Monday, 1 August 2016
شریک گل رہا آوارۂ صبا بھی رہا
اور اپنی ذات کے صحرا میں لا پتا بھی رہا
کیا طویل سفر میں نے راستوں کے بغیر
مگر غبار سے سارا بدن اٹا بھی رہا
ملے ہر ایک سے طعنے سلامتی کے مجھے
کسے خبر کہ میں اندر سے ٹوٹتا بھی رہا
بس یونہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں
ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کاسوں دور رہا
شب فراق بھی چہرہ نما گزرتی ہے
کبھی چراغ بکف بھی ہوا گزرتی ہے
نہ آئی ساعتِ جاناں کہ جس کو آنا تھا
اور ایک ساعتِ جاں بارہا گزرتی ہے
کھلا یہی کہ شکست آشنا بھی ہے کیا کیا
وہ اک نگہ جو نبرد آزما گزرتی ہے
بزم والو یہ بزم آرائی
تم ہی دیکھو مجھے تو نیند آئی
ناگہاں چونک اٹھا ہے سناٹا
دفعتاً بول اٹھی ہے تنہائی
بے سبب بھی تِرا خیال آیا
بے ضرورت بھی آنکھ بھر آئی
محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے
یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے
سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
تِرے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے
کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے
حق پرستوں کے لیے زندان ہونا چاہیے
اس وطن میں مقتدر ہونے کی پہلی شرط ہے
آدمی کے روپ میں شیطان ہونا چاہیے
آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح
آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیے
تم مسیحا ہو
یعنی زمیں پر خدا ہو
خدا تو۔۔۔۔"سبھی" کا ہے
پھر اس سے کیسے گلے؟
اور کیسی توقع؟
خدا سے بھلا کون کہتا ہے
"بس میرے ہو کر رہو"
میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے
پیارے بابا! میں کچھ بال توڑوں
کہ ہم ان کو بیچیں گے
پھر جو روپے ہوں گے
ان سے
جہیز اور شادی کی تیاریاں ہو سکیں گی